طالبان نے بین الافغان مذاکرات کے لیے 21 رُکنی ٹیم کا اعلان کر دیا ہے جو افغان حکومت کے وفد سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کرے گی۔
امریکہ کی حمایت سے ہونے والے بین الافغان مذاکرات کا پہلا دور آئندہ ہفتے دوحہ میں شروع ہو گا۔
ان مذاکرات میں طالبان کی ٹیم کی سربراہی مولوی عبدالحکیم کریں گے۔
مولوی عبدالحکیم کو طالبان کے امیر مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کا قابل اعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ طالبان کے زیرِ اثر علاقوں میں قائم خود ساختہ عدالتی نظام کے سربراہ بھی ہیں۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے ہفتے کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ طالبان نے مذاکرات کے لیے ایک مضبوط اور جامع ٹیم تشکیل دی ہے جس میں رہبری شوریٰ کے اراکین کی اکثریت ہے۔
افغان حکام کا کہنا ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیمیں افغانستان میں مستقل جنگ بندی اور شراکتِ اقتدار کے معاملات پر گفت و شنید کریں گی۔
بین الافغان مذاکرات کی راہ رواں سال فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے تاریخی دوحہ معاہدے کے بعد ہموار ہوئی تھی۔ معاہدے کے تحت امریکہ نے افغانستان میں 19 سال سے جاری طویل جنگ کے خاتمے کے لیے اپنی فوج کے انخلا پر اتفاق کیا تھا۔
افغانستان کے اقتصادی اُمور کے وزیر مصطفٰی مستور نے ہفتے کو ایک آن لائن فورم کے دوران بتایا کہ کابل کی مذاکراتی ٹیم دوحہ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
پاکستان کے تھنک ٹینک 'جناح انسٹی ٹیوٹ' کے زیر اہتمام ہفتے کو ہونے والے اس آن لائن فورم سے خطاب کے دوران مصطفٰی مستور نے بتایا کہ کابل حکومت کی پہلی ترجیح مستقل جنگ بندی ہے۔ لیکن اُن کے بقول طالبان کے ساتھ پہلی ہی نشست میں جنگ بندی پر اتفاق رائے کا امکان نہیں ہے۔
اُن کے بقول مذاکرات کے پہلے دور میں برف پگھلے گی اور رسمی ملاقاتیں ہوں گی اور ابتدا میں آسان اہداف کے حصول پر بات چیت ہو گی جس کے بعد بڑے تنازعات پر مذاکرات ہوں گے۔
افغانستان میں نیٹو کے سول نمائندے اسٹیفانو پونٹی کوروو نے آن لائن فورم سے خطاب میں بتایا کہ بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ آسان نہیں ہو گا۔ اُن کے بقول فریقین کو لچک، خلوص نیت اور یہ عزم دکھانا ہو گا کہ وہ طویل عرصے سے جاری خون ریزی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ فریقین کی پہلی ترجیح تشدد میں کمی ہونی چاہیے تاکہ افغان عوام کا ان مذاکرات پر اعتماد بڑھے۔ اُن کے بقول ان مذاکرات کے لیے عوام کی حمائیت ضروری ہے۔
نیٹو کے سول نمائندے کا مزید کہنا تھا کہ ان مذاکرات پر افغان عوام اور پوری دنیا کی نظریں ہیں۔
اُن کے بقول فریقین میں سے کسی نے بھی یہ موقع ضائع کیا تو افغان عوام انہیں معاف نہیں کریں گے۔
دریں اثنا افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد بھی بین الافغان مذاکرات میں تعاون کے لیے دوحہ پہنچ رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان عوام تشدد کے خاتمے اور سیاسی تصفیے کے لیے تیار ہیں جس سے جنگ کا خاتمہ ہو گا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان رہنماؤں کو اس تاریخی موقع سے فائدہ اُٹھانا چاہیے۔
رواں سال امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت 2021 تک افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ہو گا جب کہ اس کے عوض طالبان امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔
معاہدے کے تحت طالبان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ آئندہ افغان سرزمین امریکہ یا اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔
معاہدے میں طالبان نے دیگر افغان دھڑوں کے ساتھ مل بیٹھ کر افغانستان کے سیاسی مستقبل کے تعین پر بھی اتفاق کیا تھا۔
معاہدے کے بعد اب تک امریکہ نے افغانستان میں اپنی فوج کی تعداد 13 ہزار سے گھٹا کر 8600 کر دی ہے ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کر رکھا ہے کہ اس سال نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات تک افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد کم کر کے چار سے پانچ ہزار تک کر دی جائے گی۔
بین الافغان مذاکرات کا باقاعدہ آغاز 10 مارچ کو ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے کے معاملے پر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان اختلافات کی وجہ سے مذاکرات میں تاخیر ہوئی۔