افغانستان کی اعلیٰ کونسل برائے قومی مصالحت کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ افغان حکومت نے طالبان کے جن قیدیوں کو رہا کیا تھا اُن میں سے بعض نے دوبارہ ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ نے منگل کو امریکی کونسل برائے فارن ریلیشن سے آن لائن کانفرنس میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کابل حکومت اور طالبان کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے لیے شرط طالبان کے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی تھی۔ تاہم رہائی پانے والوں میں سے بعض اب پھر سے حکومتی فورسز کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رہا ہونے والے طالبان قیدیوں کی دوبارہ میدانِ جنگ میں واپسی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں تشدد میں کمی کی بجائے اس میں اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے امریکہ اور پاکستان پر زور دیا کہ وہ طالبان کو جنگ بندی پر راضی کریں۔
یاد رہے کہ افغانستان میں طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری کے آخر میں امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت افغان حکومت اور طالبان آپس میں قیدیوں کے تبادلے کے پابند تھے۔
قیدیوں کے تبادلے کے اس عمل کے دوران طالبان رہنماؤں نے پاکستان کا بھی دورہ کیا۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان بات چیت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔
افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں جاری ہیں جن میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے افغانستان میں تشدد بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے اور یہ عوام کے لیے قابلِ قبول نہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ طالبان اور تمام شراکت داروں سے کہتے ہیں کہ وہ طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کریں۔
بین الافغان مذاکرات سے متعلق عبداللہ عبداللہ نے بتایا کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں فریقوں کے درمیان بات چیت مثبت طریقے سے آگے بڑھ رہی ہے اور دونوں جانب کے وفود میں بعض معاملات پر یکسانیت پائی جاتی ہے۔
عبداللہ عبداللہ نے مزید کہا کہ آنے والے دنوں میں وہ پاکستان کے دورے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 2008 کے بعد ان کا یہ پہلا پاکستان کا دورہ ہو گا۔