رسائی کے لنکس

انٹرنیٹ پر آزادی اظہار کا عالمی دن اور پاکستان


دنیا بھر میں 29 اکتوبرکو انٹرنیٹ کی 47 ویں سالگرہ کے موقع پر اس کا عالمی دن منایا جارہا ہے اور انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات تک با آسانی رسائی پر خوشی منائی جارہی ہے

ساتھ ہی اس دن کی مناسبت سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین کے حقوق بڑھنے کے بجائے گھٹتے جارہے ہیں اور اور آن لائن پلیٹ فارم پر اختلافات رکھنے کی گنجائش بھی کم ہوتی جا رہی ہے لیکن اس کے برعکس یہاں نفرت آمیز تقاریر بلا روک ٹوک جاری ہیں۔

پاکستان میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت کے لیے کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک پاکستان کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 ملک میں ڈیجیٹل حقوق، آزادی اظہار اور آن لائن معلومات تک رسائی کے اہم حقوق کے لیے سنگین خطرات کا سال ثابت ہوا ہے جس میں گھٹن بڑھی ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ پاکستان میں کم ہوتی آن لائن آزادی کم ہونے کا سب سے بڑا نقصان آزادانہ طور پر اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے اور آن لائن صحافت کرنے والوں کو پہنچ رہا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں پاکستان میں رواں سال غلط، بے بنیاد معلومات اور جھوٹی خبروں کے بڑھتے ہوئے پھیلاو پر بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی اصل وجہ سیاسی تقطیب (پولرائزیشن) میں شدت کو قرار دیا گیا ہے جسے رپورٹ میں درج الفاظ کے مطابق برسر اقتدار جماعت پاکستان تحریک انصاف اور خود وزیر اعظم عمران خان کی بھی حمایت حاصل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ پر ایک جماعت کے حامی دوسری جماعت کے رہنماوں کے خلاف پراپیگنڈے کے طورپر غلط معلومات پھیلاتے ہیں جس کا مقصد مخالفین کا عوامی تاثر خراب کرنا اور اپنا بیانیہ من و عن آگے منتقل کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادیوں کو کم کرنے کے لئے کیا حربے استعمال کئے جارہے ہیں؟

اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سال 2020 کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ سے متعلق قوانین میں کئی سختیاں آٗئی ہیں اور کئی مقامات پر میڈیا کے شعبوں کو ضرورت سے زیادہ حد تک ریگولیٹ کیا گیا ہے جس سے میڈیا اداروں بالخصوص صحافیوں کے حقوق بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

اسی طرح ان قوانین سے ملک میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی کی مختلف تحریکوں اور ان کے رہنماوں کو بھی انسانی حقوق کی جدوجہد میں مشکلات کا کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں عتاب کا نشانہ بنایا گیا۔

فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے حکومت نے پریونشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) کو سینسرشپ بڑھانے کے مقاصد کے لئے استعمال کیا۔ سائبر کرائمز قوانین کو بار بار صحافیوں اور عوامی رائے بنانے والوں کے خلاف استعمال کیا گیا تا کہ وہ اپنا آزادی اظہار کا حق استعمال نہ کر سکیں۔

نہ صرف یہ بلکہ وفاقی کابینہ نے آن لائن مواد کی نگرانی کے لیے نئے قوانین منظور کیے حالانکہ اس سے قبل بھی قواعد تو تیار کئے گئے لیکن شہریوں کو آن لائن نقصانات سے بچاؤ کے قوانین (ٓ آن لائن ہارمز رولز) پر سول سوسائٹی، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے پرزور احتجاج کے باعث ان پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر انتظامی کنٹرول رکھنے والے ادارے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے انٹرنیٹ پر مختلف مواد کو سنسر کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا بلا روک ٹوک استعمال کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ اتھارٹی نے وی پی این ایس (ورچول پرائیویٹ نیٹورکس) کی رجسٹریشن جن کی شرط عائد کر کے ملک میں ایک اور تنازع کو جنم دیا۔ اسی طرح انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے سرکاری اداروں نے ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والے قومی اور عالمی اداروں کے ان مطالبات کو بھی نظر انداز کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ یہ ادارے آرٹیفیشل انٹیلیجنس اسٹریٹجی اور انسانی حقوق کے فریم ورک کے تحت انٹرنیٹ کی آزادی کو ممکن بنانے کے لیے ایسیک ایک گائیڈ لائن تیار کریں جس کے تحت انٹرنیٹ کو ریگولیٹ کرنے والے ادارے کام کریں۔

’آزادی اظہار پر پابندی بین الاقوامی مسئلہ بنتا جا رہا ہے‘
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

پاکستان دنیا میں انٹرنیٹ کی "محدود آزادی" دینے والے ممالک کی فہرست میں شامل

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ہزار بیس میں پاکستان کی دنیا بھر میں انٹرنیٹ کی آزادی کی انڈیکس میں کارکردگی انتہائی خراب رہی اور پاکستان سو میں سے محض 38 پوائنٹس حاصل کر کے کم آن لائن آزادی والے ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔

رپورٹ کے مندرجات کے مطابق حکام کی جانب سے زیادہ تعداد میں سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی ویب سائٹس بلاک کرنے اور غیر اعلانیہ طور پر رابطوں کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ ملک میں غلط معلومات کے پھیلاو کے باعث سال 2020 کے دوران انٹرنیٹ کی آزادی پاکستان میں تنزلی کا شکار ہوئی۔
اس دوران کئی صحافیوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کئی کارکنوں کو تفتیش، تحقیقات، اغوا، گرفتاریوں اور آن لائن سرگرمیوں جیسا کہ جھوٹی اور پراپگینڈا پر مبنی پوسٹس لگانے سے انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔

اسی طرح رپورٹ کے مندرجات میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ حکومت پاکستان نے "ویب مانیٹرنگ سسٹم" کے قیام کے لئے ایک بین الاقوامی کمپنی کی خدمات بھی حاصل کرلی ہیں جس کے ذریعے رابطوں کی گہرائی کے ساتھ نگرانی اور جائزہ لیا جائے گا اور کمیونیکیشن ٹریفک اور کال ڈیٹا کی مانیٹرنگ کے لئے ریکارڈ بھی کیا جاسکے گا۔

آزادی اظہار پر پاندیاں مگر نفرت آمیز تقاریر کی آزادی:

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب جہاں صحافیوں اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والوں کو آن لائن ہراساں کیے جانے کا سامنا کرنا پڑا وہیں انٹرنیٹ پر مذہبی اقلیتوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر نفرت پر مبنی تقاریر کھلے عام دستیاب رہیں اور انہیں رواں سال بڑے پیمانے پر ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا۔
فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ کے مطابق مذہبی اقلیتوں، سیکورٹی ایجنسیز، انسانی حقوق، صنف، سیاست اور ترقی کے موضوعات ایسے تھے جس پر بڑے پیمانے پر آن لائن تبادلہ خیال کیا گیا اور ان موضوعات پر اکثر معاندانہ ردعمل کا کھلے عام اظہار ہوتا رہا۔

اسی طرح آن لائن نیوز میڈیا پلیٹ فارمز سے رپورٹ کرنے والوں کو نفرت آمیز تقاریر، دشمنی، ان کے مواد کو منظم طریقے سے ٹارگٹ کرنے، مذہبی اقلیتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو دھمکیوں، گالیوں، ٹرولنگ، ہیکنگ، بلاکنگ اور غداری کے الزامات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ یہ الزامات سیاسی جماعتوں، مذہبی گروہوں، نامعلوم منظم گروپس اور حتٰی کہ سرکاری ذرائع سے بھی عائد کئے جاتے رہے۔

اسی طرح 2020 میں خواتین صحافیوں کی بڑی تعداد کو بھی آن لائن تشدد کا سامنا کرنا پڑا جس کا براہ راست اثرات ان خواتین کی ذاتی اور پیشہ وارانہ زندگیوں پر پڑا۔ اس سال درجنوں خواتین نے یہ انکشاف کیا ہے کہ وہ ٹیکنالوجی سے منسلک تشدد کی وجہ سے خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔ اور یہ حملے ان پر مختلف ذرائع بشمول موجودہ برسر اقتدار جماعت کے ورکرز اور سپورٹرز کی جانب سے کئے جاتے رہے ہیں۔

"حکومت کا عدم برداشت کا رویہ انٹرنیٹ کی آزادی سُکڑنے کی اصل وجہ ہے"

رپورٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فریڈم نیٹورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے عدم برداشت کے رویوں کا سامنا ہے۔ ایک جانب حکومت اپنا بیانیہ پیش کرنے کے لئے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہی ہے لیکن دوسری جانب وہ لوگ جو عوام کو تصویر کا دوسرا رُخ بھی بتانا چاہتے ہیں ان لوگوں کو حکومت کی جانب سے کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہیں پیکا اور دیگر قوانین کا سہارا لے کر ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قوانین بناتے وقت کہا گیا تھا کہ اس سے انٹرنیٹ پر دہشتگردوں کا بیانیہ روکا جائے گا لیکن یہ صحافیوں اور اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرنے والوں کے خلاف تو خوب استعمال ہورہا ہے مگر کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے سوشل میڈیا استعمال کو نہ روکا جاسکا۔ اور ان قوانین کے خلاف بنائے گئے تمام تر مقدمات میں، ان کے بقول، حکومت یا پھر کہیں نہ کہیں ریاست یا ریاستی ادارے ہی ملوث ہوتے ہیں۔

کمپیوٹرسکرین کی یہ تصویر دکھا رہی ہے کہ پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی ہے۔
کمپیوٹرسکرین کی یہ تصویر دکھا رہی ہے کہ پاکستان میں یوٹیوب پر پابندی ہے۔

انہوں نے سال 2020 کو انٹرنیٹ کی آزادی کے لئے مایوس کُن قرار دیتے ہوئے کہا کہ امید کی جارہی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت برسر اقتدار آنے سے ملک میں انٹرنیٹ کی آزادی بڑھے گی لیکن ہوا اس کے برعکس ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ آن لائن آزادی کا تصور اس قدر کم ہوا ہے کہ اگر آپ حکومت کے بیانیے کے خلاف بات کرتے ہیں تو اس کا مقصد خطرات کو دعوت دینا ہے اور خطرات اور مشکلات سنگین صورتحال اختیار کرسکتے ہیں جس سے آپ کی زندگی کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔

اسد جان صحافی اور ٹرینر ہونے کے ساتھ ساتھ میڈیا کی آزادی کے ایک سرگرم کارکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے سائبر قوانین کو ایسے گروہوں کے خلاف استعمال کم کیا جارہا ہے جو نفرت کے پھیلاو کے لئے انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہیں۔ ریاستی ادارے جن لوگوں کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں وہ کر لیتے ہیں اور جن کے خلاف کارروائی ان کی ترجیح نہیں انہیں نفرت آمیز تقاریر کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ لیکن ان کے خیال میں انٹرنیٹ پر نفرت آمیز مواد پھیلانے والوں کے خلاف بھی قانون حرکت میں آئے تو انہیں بھی روکا جا سکتا ہے لیکن اگر ایسا کرنے کے لیے عزم ہو تب ہی یہ ممکن ہے۔

صحافیوں کے خلاف سنگین جرائم حل طلب رہنے میں پاکستان نویں نمبر پر:

اسی طرح کمیٹی ٹُو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی جانب سے جاری کردہ گلوبل امپیونٹی انڈیکس میں پاکستان کو ان بارہ ممالک کی فہرست میں نویں نمبر پر رکھا گیا جہاں صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے قتل کیا گیا اور ان کے قاتلوں کو اب تک انصاف کے کٹہرے میں نہیں لایا جاسکا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایسے 15 کیسز ہیں جو ابتک حل طلب ہیں۔

سی جے پی کی ویب سائٹ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2019 میں کہاں صحافیوں کا قتل ہوا۔
سی جے پی کی ویب سائٹ جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ 2019 میں کہاں صحافیوں کا قتل ہوا۔

کمیٹی کی رپورٹ گلوبل امپیونٹی انڈیکس کے مطابق ایسے ممالک کی فہرست میں پاکستان، میکسیکو اور فلپائین شامل ہیں جہاں کمزور ادارے، کرپشن اور سیاسی ارادے کے نہ ہونے کی وجہ سے ایسے کیسز میں تمام اجزا کی تحقیقات نہیں ہوتیں۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کراچی میں وال اسٹریٹ جنرل سے وابستہ قتل کئے گئے صحافی ڈینئیل پرل کیس میں سندھ ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک حیران کن قانونی صورت حال ہے جس میں معلوم ہوا کہ ایسے کیسز جہاں عرصہ پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ کیس حل ہو چکے ہیں وہ بھی الٹ سکتے ہیں۔

یاد رہے کہ اپریل میں سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس کیس میں تین ملزمان کو عدم ثبوت کی بنا پر رہا کرنے اور مرکزی ملزم احمد عمر شیخ کو قتل کے الزام سے بری کرتے ہوئے سات سال قید کی سزا کا حکم دیا ہے۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سندھ حکوت اور ڈینئیل پرل کے خاندان کی جانب سے دائر کی گئی اپیلیں اس سال ستمبر میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے سماعت کے لیے منظور کر لی تھیں۔

Daniel Pearl
Daniel Pearl

سی پی جے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جوؤل سائمن نے کولمبیا جرنلزم ریویو میں لکھا ہے کہ ان ملزمان کو آزاد کرنا ’’انصاف کے حصول کے لیے زبردست دھچکا ہے اور اس سے پاکستان اور دنیا بھر میں ان جہادیوں کو خطرناک پیغام جائے گا جو ڈینئیل پرل کے قتل کے بعد پچھلے 18 برس سے صحافیوں کو ٹارگٹ کرتے آئے ہیں۔‘‘

سی پی جے کی رپورٹ میں مزید لکھا گیا کہ 2008 کے بعد جب سے کمیٹی کی جانب سے گلوبل امپیونٹی رپورٹ جاری کی جا رہی ہے پاکستان اس فہرست میں مسلسل موجود رہا ہے۔

کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں ان بارہ ممالک کا ذکر کیا ہے جہاں صحافیوں کے قتل کے 80 فیصد کیسز سامنے آئے ہیں۔ ان میں صومالیہ 26 حل طلب کیسز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ شام میں یہ تعداد 22 اور عراق میں 21 ہے۔ اس کے علاوہ جنوبی سوڈان 5، افغانستان 13، میکسیکو 26، فلپائین 11، برازیل 15، پاکستان 15، بنگلہ دیش 7، روس 6 اور بھارت 17 کیسز کے ساتھ فہرست میں شامل ہیں۔

حکومت آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہے:

لیکن دوسری جانب حکومتی وزراء اور حکام اس تاثر کو مکمل رد کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت آزادی صحافت کے خلاف کام کررہی ہے بلکہ تحریک انصاف کے وزراء کا یہی موقف رہا ہے کہ اس کی حکومت آزادی صحافت پر مکمل یقین رکھتی ہے۔ وفاقی وزیر سینیٹر شبلی فراز بارہا اپنے بیانات میں یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کی حکومت صحافیوں کو معاشی تحفظ دینے کیلئے کوشاں ہے اور صحافیوں کی کام کے دوران سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے قانون سازی کا عمل جاری ہے جسے جلد ہی پارلیمان سے منظور کروا لیا جائے گا۔ وزیر اطلاعات و نشریات شبلی فراز نے رواں ماہ کراچی پریس کلب کے دورے کے موقع پر صحافیوں سے ملاقات میں کہا تھا کہ ان کی جماعت تحریک انصاف کا بیانیہ عوام تک پہنچانے میں میڈیا کا اہم کردار رہا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ صحافت مشکل اورصبرآزما پیشہ ہے جبکہ اس وقت پاکستان میں صحافی دوہری اذیت کاشکارہیں مگران کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت اس مشکل گھڑی میں صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہے گی۔

اسی طرح وزیراعظم عمران خان بذات خود پاکستان کے اندر اور باہر کئی فورمز پر گفتگو اور انٹرویوز میں دعوی کر چکے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا کو جتنی آزادی حاصل ہے وہ برطانیہ جیسے ملک میں بھی نہیں دیکھی جا سکتی۔ تاہم بہت سے نقاد عمران خان کے اس موقف سے اتفاق نہیں کرتے۔

Human Rights Report
Human Rights Report

لیکن میڈیا سے وابستہ بیشتر پروفیشنلز حکومت کے ان خیالات سے اختلاف رکھتے ہیں اور کئی حکومتی اقدامات اور قوانین کے غلط استعمال پر سوالات اٹھاتے نظر آتے ہیں۔

میڈیا کے سرگرم نمائیندے اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اگر سول سوسائٹی، پارلیمان میں موجود مختلف جماعتیں اور انسانی حقوق کے کارکنان مل کر صحافت اور بالخصوص انٹرنیٹ پر کی جانے والی آن لائن صحافت کی گھٹتی ہوئی آزادی کے خلاف آواز اٹھائیں اور مشترکہ مزاحمت کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کم ہوتی ہوئی آزادیوں کو دوبارہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ شخصی آزادی کا مکمل تصور ملک کے آئین میں موجود ہے اور اسی آئین میں آزادی اظہار رائے کی بھی ضمانت دی گئی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG