آن لائن پلیٹ فارمز کے حوالے سے جب بھی کوئی نئی سرکاری پالیسی سامنے آتی ہے تو عمومی طور پر اس کا چرچہ بہت دیر تک سوشل میڈیا پر ہوتا ہے۔
اس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب رواں ماہ نو نومبر کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک نوٹی فکیشن جاری کیا۔ جس میں کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں کسی قسم کے بھارتی مواد کی سبسکرپشن اور اس کے لیے رقم کی منتقلی پر پابندی عائد کر دی گئی۔
اسی نوٹی فکیشن میں خاص طور ایک پلیٹ فارم کا نام لے کر تذکرہ کیا گیا ہے وہ ہے 'زی فائیو۔'
'وڈیو آن ڈیمانڈ' کے پلیٹ فارم 'زی فائیو' جو کہ بھارت کے 'زی میڈیا گروپ' کا حصہ ہے۔ پہلے سے ہی سوشل میڈیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ اس کی وجہ اس پر پیش کیا جانے والا ایک پاکستانی سیریل 'چڑیلز' ہے۔ اس پر پاکستانی روایات کے برعکس بولڈ تھیمز پیش کرنے کا الزام کچھ صارفین کی جانب سے بہت سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لگایا جا رہا تھا۔ لیکن اس پر کسی قسم کی کوئی حکومتی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔
ڈرامہ چڑیلز میں لیڈ رول نبھانے والوں میں پاکستانی اداکارہ نمرہ بچہ بھی ہیں جو ڈرامے پر تنقید کے جواب میں سوشل میڈیا پر متحرک دکھای دیتی رہیں۔
'زی فائیو' پر سرکاری پابندی کا چڑیلز اور دیگر پیش کیے جانے والے ڈراموں پر کیا اثر پڑے گا؟ اس سوال پر نمرہ بچہ کا کہنا تھا کہ وہ دیگر اداکاروں کی طرح اس فیصلے سے بہت مایوس ہوئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی پلیٹ فارم کو آج کے زمانے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے بقول لوگ انہیں دیکھنے کے لیے چور دروازے جیسے کے وی پی این، وغیرہ کا استعمال کر لیتے ہیں۔ ان کے بقول لیکن اس سے انڈسٹری کو نقصان ہوتا ہے۔
بات صرف ڈرامے کے اداکاروں تک محدود نہیں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری سے جڑے دیگر افراد بھی اس فیصلے سے خائف نظر آرے ہیں۔
کہانی نویس ساجی گل کا کہنا ہے کہ اب کسی بھی آن لائن پلیٹ فارم کو کسی ایک ملک سے منسوب کر دینے کا وقت گزر چکا ہے۔ ان کا اپنا ڈرامہ سیریل ‘من جوگی’ ان ڈراموں میں سے ایک تھا جسے زی فائیو نے پیش کرنا تھا۔ پیش کیے جانے والے باقی ڈراموں میں باغی، میرے قاتل میرے دلدار، رنگ ریزہ، شہر ذات اور دیارِ دل شامل ہیں۔
ان کے مطابق ملک میں لکھنے والوں کے لیے ماحول غیر موافق ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ ریگولیٹری باڈیز کا بڑھتا عمل دخل ہے۔ ساجی کہتے ہیں کہ آئے دن لگنے والی پابندیوں اور وضح کردہ نت نئے قوانین نے سب کو صرف ساس بہو کے جھگڑے پیش کرنے تک محدود کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کروڑوں افراد دنیا بھر مین بلا تفریق قومیت اردو زبان سمجھتے ہیں۔ اس لیے تخلیقی کام کرنے والوں پر یہ پابندیاں لگانا ان کا ٹیلنٹ ضائع کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے زی فائیو پر پیش کیے جانے والے ڈراموں کے غیر روایتی موضوعات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بھی ایسے پلیٹ فارمز ہونے چاہیے جہاں آن ڈیمانڈ معیاری مواد دستیاب ہو۔ لیکن اس کے موضوعات کو محدود نہیں کرنا چاہیے۔
جہاں ڈرامے پروڈیوس کرنا اور ان میں اداکاری انڈسڑی کا ایک پہلو ہے، وہیں اس کا دوسرا پہلو سامعین یا پاکستانی شہریوں کے ڈیجیٹل رائٹس سے بھی جڑا ہوا ہے۔
نمرہ بچہ نے اس پابندی کے سامعین پر پڑنے والے اثرات کے حوالے سے کہا کہ ایسی پابندی صرف متفرق آرا اور حالات کی حقیقی تصویر کشی سے سامعین کو محروم کرنے کی ایک ترکیب ہے۔
ڈیجیٹل حقوق ایسی پابندیوں سے کیسے متاثر ہوتے ہیں اس بارے میں ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'بولو بھی' کی بانی فریحہ عزیز نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شہری کیا دیکھ سکتے ہیں کیا نہیں دیکھ سکتے، اس پر پابندی ‘مورال پولیسنگ’ میں آتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ کیا مناسب اور نا مناسب مواد کی تعریف کے حوالے سے حکومت نے کوئی ایسے قوائد وضح کیے ہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہوں؟
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ایسی پابندیوں سے سوشل میڈیا اور انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے افراد میں سیلف سنسر شپ کا عنصر بڑھے گا جو ایک تشویش ناک بات ہے۔
لیکن کیا کسی متنازع میڈیا گروپ کے ساتھ کام کرنے کے بجائے دیگر مغربی پلیٹ فارمز پاکستان کے لیے بہتر آپشن نہیں؟ اس سوال کے جواب میں ساجی گل کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اپنا پورٹل ہو تو اسے بھی اپنی جگہ بنانے میں کئی سال لگیں گے۔
ان کے بقول دوسری طرف "نیٹ فلکس اور ‘ایمزون’ ہمارے ساتھ کام کرنے کے لیے بہت زیادہ دلچسپی نہیں لیتے۔ ان کے مطابق وہاں صرف پاکستان کے ڈراموں کے نشر مکرر چلائے جاتے ہیں جب کہ بھارت ایک بڑی منڈی ہونے کی وجہ سے ان کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ پلیٹ فارم بھارت میں کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں لیکن پاکستانی ڈراموں کو ابھی وہاں تک رسائی ہی نہیں۔
نمرہ بچہ کا کہنا ہے کہ پاکسانی ڈراموں کو 'زی فائیو' کے ذریعے ایک بین االاقوامی پلیٹ فامر مل رہا تھا جس سے انڈسٹری کو محروم کر دیا گیا، وہیں ساجی گل سمجھتے ہیں کہ ڈراموں کو معیاری پروڈکشن آلات اور کیمرے با آسانی دستیاب تھے۔ جو فی الوقت پاکستان میں ملنا ناممکن ہیں۔
بین الااقوامی ڈراموں تک محدود رسائی کے بارے میں فریحہ عزیز کا کہنا ہے کہ یہ عجیب قسم کی ایک زبردستی ہے جہاں دیکھنے والے کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ صرف وہی کچھ دیکھیں جو ریاست انہیں دیکھنے کی اجازت دیتی ہے۔
انہوں نے ترکی کے ڈرامہ ‘ارطغرل’ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ملک کو شاید 80 کی دہائی میں لے جانا چاہتی ہے جب صرف پی ٹی وی تھا اور دیکھنے والوں کے پاس انتخاب کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ انڈسڑی ہو یا عام شہری انہیں یہ سمجھنا ہو گا کہ ان کے کچھ حقوق ہیں جن کے لیے انہیں آواز اٹھانی چاہیے۔
ڈرامہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے اس بات سے پریشان نظر آتے ہیں کہ سنسر شپ کا دائرہ کار غیر محسوس طریقے سے بڑھایا جا رہا ہے۔ جو معاشرے میں مثبت بحث مباحثے کے کلچر کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے۔ جب کہ ڈیجیٹل حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اسے عام زندگی کی شہری میں بلا جواز دخل اندازی قرار دے رہی ہیں۔