امریکہ کی ریاست جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں پر ہونے والی پولنگ کے بعد ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ یہ انتخابی نتائج فیصلہ کریں گے کہ ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں میں سے کون سینیٹ کو کنٹرول کرے گا۔
نومبر کے انتخابات میں جارجیا میں سینیٹ کی دو نشستوں کے مقابلوں میں کوئی بھی امیدوار 50 فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر سکا تھا، اس لیے ان دو نشستوں پر دوبارہ انتخابات ہوئے ہیں۔
ان دو مقابلوں میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رافیل ورنوک اور جان اوسوف، اور ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکان کیلی لوفلر اور ڈیوڈ پردو مدِ مقابل ہیں۔
ووٹنگ کے روز سے قبل کیے گئے عوامی آرا کے جائزوں کے مطابق ڈیموکریٹ امیدواروں کو مدِ مقابل ری پبلکن امیدواروں پر معمولی سی برتری حاصل ہے۔
توقع کی جا رہی ہے کہ ان مقابلوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح بہت زیادہ رہے گی۔ پہلے ہی الیکشن کے روز سے قبل ووٹ ڈالنے کی سہولت استعمال کر کے 30 لاکھ ووٹرز اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر چکے تھے۔
تین نومبر کو ہونے والے انتخاب میں جارجیا کے 50 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالنے کا اپنا جمہوری حق استعمال کیا تھا۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً ایک لاکھ ایسے ووٹرز ہیں جنہوں نے نومبر کے انتخابات میں ووٹ نہیں ڈالا تھا۔
سرکاری اہل کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابی مقابلوں سے پہلے ووٹ ڈالنے کا رجحان ان علاقوں میں زیادہ رہا جہاں نومبر میں ڈیموکریٹک امیدوار کی حیثیت سے جو بائیڈن نے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے۔
دوسری طرف ری پبلکن کا کہنا ہے کہ وہ منگل کے روز ہونے والی ووٹنگ میں کہیں بہتر کارکردگی دکھائیں گے۔
تین نومبر کے الیکشن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ ووٹنگ کی رات جارجیا میں برتری حاصل کرتے دکھائی دیے، لیکن جب ووٹوں کی گنتی مکمل ہوئی تو وہ اس ریاست میں ہار گئے۔
سینیٹ میں اس وقت کس پارٹی کا پلٹرا بھاری ہے؟
اس وقت ری پبلکنز کو ڈیموکریٹک پارٹی پر ایوان میں 48 کے مقابلے میں 50 کے تناسب سے دو سیٹوں کی برتری حاصل ہے۔ اس تناظر میں ری پبلکن کی ایک سیٹ پر بھی فتح انہیں ایوان میں اکثریت دلا دے گی۔
دوسری طرف اگر ڈیموکریٹک پارٹی دونوں سیٹوں پر کامیاب ہوتی ہے تو 50-50 نمائندگی ہونے کے بعد ان کی پارٹی، نائب صدر کاملا ہیرس کے ووٹ سے اکثریتی پوزیشن میں ہو گی۔
ری پبلکن پارٹی کا سینیٹ میں کنٹرول برقرار رہنے کی صورت میں نئے صدر جو بائیڈن کو اگلے دو برس میں اپنا قانون سازی کا ایجنڈا پاس کرانے میں ایک پیچیدہ صورت حال کا سامنا ہو گا۔ انہیں صحتِ عامہ کے پروگرام میں توسیع، امیگریشن اور آب و ہوا میں تبدیلی کے معاملات پر طویل مذاکرات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
صدر ٹرمپ اور بائیڈن کے ووٹروں سے خطابات
صدر ٹرمپ اور جو بائیڈن دونوں نے پیر کے روز جارجیا میں ووٹروں سے خطاب کیا تاکہ ایک آخری کوشش سے ووٹروں کو اپنے ایجنڈے سے قائل کیا جا سکے۔
بائیڈن نے ووٹروں سے کہا کہ اب اختیار ان کے ہاتھوں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ "میں نے اپنے کریئر میں کبھی ایسی صورت نہیں دیکھی کہ ایک ریاست نہ صرف اگلے چار سالوں بلکہ پوری ایک نسل کے لیے راستے کا تعین کرے گی۔"
باییڈن نے کہا کہ جارجیا کے عوام نے ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈال کر نومبر کے الیکشن میں انہیں تھوڑے سے فرق سے کامیابی دلوائی اور اب انہیں پھر اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ ایک بار اور ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالیں۔
اسی روز جارجیا کے شمال میں ری پبلکن پارٹی کے گڑھ ڈالٹن میں خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے کہا کہ جس امریکہ سے وہ محبت کرتے ہیں اسے بچانے میں یہ الیکشن آخری موقع ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "انتہائی بائیں بازو کے پیروکار ہمارے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں، ہماری تاریخ کو مسخ کرنا چاہتے ہیں اور ہر اس چیز کو مٹا دینا چاہتے ہیں جو ہمیں عزیز ہے۔ اس لیے یہ ووٹ آپ کی باقی کی زندگیوں کا اہم ترین ووٹ ہو سکتا ہے۔"
صدر ٹرمپ نے جو بائیڈن کے خلاف مختصر ووٹوں کی تعداد سے اپنی شکست کو الٹنے سے انکار کرنے پر جارجیا کے ریاستی انتخابی حکام پر تنقید کا سلسلہ جاری رکھا۔
صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے یہ الیکشن جیت لیا تھا مگر ان کے خلاف جعلی ووٹ ڈالے گئے۔
جارجیا کے حکام کی ٹرمپ کے الزامات کی تردید
نومبر میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں ووٹوں کی ابتدائی گنتی اور اس کے بعد دوبارہ گنتی میں بائیڈن کو جارجیا میں فاتح قرار دیا گیا۔
ہفتے کے روز ایک فون کال کے دوران صدر ٹرمپ نے ریاست جارجیا کے اعلی عہدیدار ریاست کے وزیر بریڈ ریفین سپرگر پر زور دیا کہ وہ 11 ہزار 780 مزید ووٹ تلاش کریں تاکہ ان کی بائیڈن کے خلاف شکست کو تبدیل کیا جا سکے۔
لیکن ریفن سپرگر نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے اے بی سی نیوز چینل کو بتایا کہ صدر کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ جارجیا میں ووٹ ڈالنے میں اور ووٹوں کے شمار میں فراڈ ہوا۔
نوجوان ووٹرز جارجیا کے مقابلوؓں پر کیسے اثر انداز ہو سکتے ہیں؟
ایک نئی تحقیق کے مطابق جارجیا کے مقابلوں میں نوجوان اور خاص طور پر سیاہ فام ووٹر اہم کردار اد کرسکتے ہیں۔
ری پبلیکن سینیٹر ڈیوڈ پردو اور ان کے مخالف ڈیموکریٹک امیدوار جان اوساف کے مابین نومبر میں ہونے والے مقابلے میں 88 فی صد سیاہ فام جوان ووٹروں نے اوساف کے حق میں ووٹ ڈالے جبکہ 31 فی صد سفید فام ووٹروں نے بھی انہیں ووٹ دیے۔
ریاست میسا چیوسٹ کے شہر میڈفورڈکی ٹفٹس یونیورسٹی کے "سینٹر فار انفارمیشن اینڈ ری سرچ آن سی وک لرننگ اینڈ اینگیجمینٹ" نے ترتیب دیے گئے ان اعداد و شمار کے مطابق موجودہ ری پبلیکن سینیٹر کیلی لوفلر اور ان کے مدمقابل رافیل وارناک کے مابین مقابلے میں 83 فی صد سیاہ فام ووٹروں نے وارناک کے حق میں ووٹ ڈالےجبکہ 32 فی صد سفیدفام نوجوانوں نے بھی انہیں ووٹ دیے تھے۔
اس سنٹر کا کہنا ہے کہ سیاہ فام ووٹروں کا یہ یکطرفہ جھکاو اس بات کی غماز ہے کہ وہ جارجیا ریاست کے ان سینیٹ کے مقابلوں پر کتنے زیادہ اثر انداذ ہو سکتے ہیں۔
قومی سطح پر اٹھارہ سے انتیس سال کے درمیانی عمر کے ووٹروں نے 25 فی صد کے تناسب سے صدر ٹرمپ کے مقابلے میں جو بائیڈن کے حق میں ووٹ ڈالے۔
جارجیا میں 2020 میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں کل ڈالے گئے ووٹوں میں 20 فی صد ووٹ نوجوان لوگوں کے تھے۔