امریکہ کے صدر جو بائیڈن جمعرات کو محکمۂ خارجہ کے دورے کے موقع پر خارجہ پالیسی سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں گے۔
امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے خطاب میں امریکہ کی مخالف قوتوں بشمول چین، شمالی کوریا، روس اور ایران سے متعلق امریکہ کی نئی حکمت عملی کے بارے میں مفصل خاکہ پیش نہیں کریں گے۔ تاہم توقع کی جا رہی ہے کہ وہ عالمی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کریں گے۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری جین ساکی نے بدھ کو بریفنگ میں کہا کہ جو بائیڈن خارجہ پالیسی کی جزیات کے بجائے وسیع تر پیرائے میں بات کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ صدر بائیڈن سمجھتے ہیں کہ چین کے معاملے پر اُنہیں اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے بھی ایک پریس بریفنگ میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
وائس آف امریکہ کی طرف سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے گزشتہ ہفتے صحافیوں کو بتایا تھا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات بہت اہم ہیں۔
چین
جین ساکی کا کہنا تھا کہ امریکہ، چین سے متعلق نئی خارجہ پالیسی پر غور کر رہا ہے جو 'اسٹرٹیجک پیشنس' یا صبر و تحمل کی حکمت عملی پر مبنی ہے۔
چین کی جانب سے سپلائی کے تسلسل اور انٹیلی جنس سے متعلق خطرات سے کیسے نمٹنا ہے؟ یہ بات انتظامیہ کی ترجیحات میں سے ایک ہے۔
حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ بائیڈن بہت جلد ایک ایگزیکٹو آرڈر پر متوقع طور پر دستخط کر سکتے ہیں جس کا مقصد سپلائی چین کا جائزہ لے کر مدِ مقابل غیر ممالک سے خاص طور پر کرونا ریلیف سپلائیز پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔
روس
امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کے روایتی اتحادیوں کے علاوہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن سمیت متعدد غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کی تھی۔
پیوٹن کے ساتھ گفتگو کے دوران، وائٹ ہاؤس کے مطابق جو بائیڈن نے روسی حزبِ اختلاف کے رہنما الیکسی نوالنی کی گرفتاری، ماسکو کی جانب سے سائبر جاسوسی کی مہم جیسے امور پر بات کی۔
امریکہ اور روس نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ انہوں نے جوہری اسلحے کی تخفیف کے معاہدے میں پانچ سال کی توسیع کر دی ہے جس کا مقصد جوہری اسلحے کے ذخائر رکھنے والے دو بڑے ممالک میں اسلحے کے پھیلاؤ پر قابو پانا ہے۔
وزیرِ خارجہ بلنکن کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ روس سے امریکہ کو جس طرح کے چیلنجز کا سامنا ہے ان پر ہماری گہری نظر ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مخاصمت پر مبنی اقدامات انسانی حقوق کی پامالی جیسے معاملات میں امریکہ روس کو جواب دہ ٹھیرانے پر کام کرے گا۔
میانمار
میانمار میں فوجی بغاوت پر امریکہ نے بدھ کو اپنے ردِعمل میں کہا تھا کہ اس کو ان اطلاعات پر پریشانی ہے کہ میانمار میں معزول راہنما آنگ سان سوچی پر فوجی بغاوت کے بعد فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔
محکمۂ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ہم ایسی اطلاعات سے باخبر ہیں کہ میانمار میں اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی اور صدر ون مینت پر جرائم کے مرتکب ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ جب کہ نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی اور پارلیمنٹ کے اراکین کو دارالحکومت سے نکل جانے کا حکم دیا گیا ہے۔