امرکی قانون سازوں نے عالمی آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کو فروغ دینے کے لیے دو بل پیش کیے گئے ہیں۔
سینیٹ میں متعارف کرائے گئے "دی گلوبل پریس فریڈم" نامی بل کے تحت آزادئ رائے کے لیے سفارت کاری کی نئی پوزیشن قائم کی جائےگی۔ وزارت خارجہ کے افسروں کو میڈیا کی آزادی کے فروغ اور بیرونی دنیا میں صحافیوں کے تحفظ کے معاملات پر تربیت دی جائے گی۔
یہ بل دونوں پارٹیوں کی ایک مشترکہ کاوش ہے، جسے ہوائی سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ برائن شاٹز اور اںڈیانا ریاست سے تعلق رکھنے والے ری پبلیکن ٹاڈ ینگ نے پیش کیا۔
دوسرے بل کا نام سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے 'دی واشنگٹن پوسٹ' کے مقتول صحافی جمال خشوگی سے منسوب کیا گیا ہے۔ "جمال خشوگی پریس فریڈم اکاؤنٹیبیلیٹی ایکٹ" کو منی سوٹا ریاست کی ڈیموکریٹ ایمی کلوبوچار اور کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے قانون ساز اور سینیٹ کی بیرونی امور کی کمیٹی کے رکن ایڈم شف نے پیش کیا۔ اس بل کا مقصد صحافیوں کو ہدف بنانے والوں کا احتساب کرنا ہے۔
ایک بیان میں کانگریس کے رکن ایڈم شف نےکہا کہ ان کا بل امریکہ اور باہر کی دنیا میں آزاد صحافت کو قائم رکھنے کے عزم کا اظہار ہے اور اس بل سے امریکی محکمہ خارجہ کے پاس اختیار ہو گا کہ وہ اس مسئلے پر دنیا سے سفارت کاری کی سطح پر بات چیت کرے۔
آزادی صحافت کی علم بردار تنظیموں نے اس بل کو پر جوش انداز میں سراہا ہے۔
"رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز" تنظیم کے سیکرٹری جنرل کرسٹوفر ڈی لوئر نے بل کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ جب پریس کو خاموش کر دیا جاتا ہے تو بدعنوانی، تشدد، عدم مساوات اور اختیارات کے غلط استعمال جیسے مسائل کسی کے نوٹس میں آئے بغیر جاری رہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون سازی سے اب امریکی حکومت کو اضافی ذرائع دستیاب ہوں گے، جن کے استعمال سے یہ یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ امریکی حکام ازادئ رائے اور صحافیوں کے تحفظ کو خاص طور پر ایسی جگہوں پر فروغ دے سکیں گے جو صحافیوں کے لیے غیر محفوظ ہیں اور جہاں انہیں تنازعات کا سامنا ہے۔
"فریڈم ہاوس" نامی تنظیم کی ڈائریکٹر اینی بوایاجین نے کہا کہ ان کی تنظیم دی 'گلوبل پریس فریڈم ایکٹ' کی حمایت کرتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے۔
آزادئ صحافت کے لیے خصوصی سفیر کی تقرری سے اس معاملے کو زیادہ توجہ ملے گی اور محکمہ خارجہ کو اس اہم کام کی انجام دہی کے لیے ایک مرکزی نقطہ دستیاب ہو گا۔
کانگریس نے دس سال قبل ایک ایسا ہی قانون بنایا تھا جس کا نام سن 2002 میں پاکستان میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا کے بعد قتل کیے گئے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے نام پر رکھا گیا تھا۔ اس بل نے محکمہ خارجہ کو پابند کیا کہ وہ آزائ رائے کے خلاف پابندیوں کے متعلق معلومات جمع کریں اور انہیں ہر سال شائع ہونے والی انسانی حقوق کی رپورٹ میں شامل کریں۔
صدر جو بائیڈن نے خارجہ پالیسی پر اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ آزاد پریس جمہوریت کی صحت کے لیے لازم ہے ۔
عالمی پریس کی آزادی کی فہرست میں امریکہ 2020 میں دنیا کے 180 ممالک میں 45 ویں نمبر پر تھا۔