ایک حالیہ رپوٹ میں بتایا گیا ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کے اوسط درجۂ حرارت میں ایک ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ دیکھا گیا ہے جس کے اثرات ماحولیات، زراعت اور پانی کے ذخائر پر بھی پڑ رہے ہیں۔ بارشوں کے سلسلوں میں بھی 20 فی صد فرق سامنے آیا ہے۔ کہیں بارشوں کے ہونے کا وقت تبدیل ہو گیا ہے تو کہیں بارشیں زیادہ اور کم ہونے کے مقامات میں فرق دیکھا جا رہا ہے۔
'گلوبل کلائمٹ چینج ایمپکیٹ سینٹر پاکستان' کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق 10 سال کی سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ ملک میں موسمِ گرما طویل ہو رہا ہے اور اوسطاً ہر سال ایک دن کا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں سال 2015 سے 2018 تک گرین ہاوس گیسز یعنی ماحول کے لیے نقصان دہ سمجھے جانے والی گیسوں کے اخراج میں 20 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس میں بڑی مقدار توانائی کے منصوبوں اور زرعی شعبے سے ایسی گیسز کے اخراج کی ہے۔ تاہم عالمی معیار سے اب بھی ان گیسز کا اخراج نو فی صد کم بتایا جاتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں تخمینے سے کم اخراج کی وجہ کوئلے سے چلنے والے توانائی کے منصوبوں پر کم انحصار اور جنگلات کی تیزی سے کٹائی کے عمل کو کسی حد تک کم کرنا ہے۔
'پاکستان میں ہر سال آٹھ ہزار ہیکٹر جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے'
اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں 2012 تک ہر سال تقریباً 12 ہزار ہیکٹر رقبے پر جنگلات کا صفایا کیا جاتا رہا جس میں سب سے زیادہ 34 فی صد دریائی جنگلات تھے جب کہ کم بارشوں والے علاقوں میں سے بھی 20 فی صد جنگلات شامل تھے۔ اس طرح صوبۂ پنجاب اور پھر سندھ میں جنگلات کا صفایا ملک میں سے تیزی سے کیا گیا۔
خیبر پختونخوا میں یہ شرح 12 فی صد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔ تاہم اس رحجان میں 2018 تک کمی لائی گئی ہے مگر اب بھی آٹھ ہزار ہیکٹر سالانہ کی رفتار سے ملک میں جنگلات کو صاف کیا جا رہا ہے۔ تاہم چھ سال میں اس کی رفتار میں 35 فی صد تک کمی لائی جا چکی ہے۔
لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ساحلی علاقوں پر پائے جانے والے مینگرووز پر کی جانے والی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ 1990 کے بعد پاکستان کے مینگروز کے جنگلات میں تین سو فی صد اضافہ ہوا ہے۔ اور اسے دنیا میں واحد ملک قرار دیا جا رہا ہے۔ یہاں مینگرووز کے جنگلات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت اسے بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ 10 ارب درختوں کے اس منصوبے میں ایک ارب مینگرووز کے درخت بھی لگائے جائیں۔
'کنکریٹ کے جنگل کی وجہ سے شہروں میں اربن فلڈنگ بڑھ گئی'
رپورٹ میں اربن فلڈنگ کے بڑھتے ہوئے رحجان کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جو گزشتہ سال ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں دیکھنے میں آیا۔ شہروں میں سیلاب کی وجہ انہیں کنکریٹ کا جنگل بنا دینا بتایا جاتا ہے۔
یہاں درختوں کی تعداد انتہائی کم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے شہر ہیٹ آئی لینڈ بن جاتا ہے اور وہاں کنکریٹ کی وجہ سے گرمی زیادہ پھیلتی ہے تو نمی زیادہ ہونے کی صورت میں وہی پانی اسی شہر پر برس پڑتا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کا واحد حل شہری علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت لگانا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ملک میں واقع 27 گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ اور اس عمل سے شمالی علاقہ جات میں جھیلوں کی تعداد صرف 3 سال میں 33 سے بڑھ کر 150 ہوگئی ہے جو کہ انتہائی خطرے کی بات ہے۔ بھارت میں حال ہی میں سامنے آنے والے ایسے حادثے کی صورت میں بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان سے دو چار ہونا پڑا۔ حکام کے مطابق اس طرح کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لئے بروقت وارننگ کا نظام لگوانا وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ جس کے لیے ایک قومی منصوبے پر کام چل رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید ترین متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان بدستور شامل
وزیرِ اعظم کے خصوصی مشیر برائے موسمیاتی تبدیلی ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ پاکستان عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ نہیں لیکن اس سے شدید متاثر ہونے والے ممالک میں شامل ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دو ہفتے قبل آنے والی رپورٹ میں پاکستان کی درجہ بندی شدید متاثرہ 10 ممالک میں پانچویں نمبر سے آٹھویں نمبر پر آ گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس کی وجہ ملک میں خوش قسمتی سے کوئی بڑا سیلاب نہ آنا ہے۔ لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ پاکستان گزشتہ 20 سال سے اس فہرست میں مستقل آ رہا ہے۔ اس فہرست میں پاکستان کے علاوہ فلپائن اور ہیٹی بھی شامل ہیں۔
ملک امین اسلم کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے جہاں جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں وہیں 10 ارب درخت لگانے کے منصوبے سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ رواں سال ایک ارب درخت لگا لیے جائیں گے جب کہ پہلے مرحلے کے اختتام پر سال 2023 تک 3.2 ارب درخت لگانے کا منصوبہ ہے۔ 2028 تک اسے 10 ارب تک مکمل کیا جائے گا۔ خصوصی مشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان اس وقت اس ہدف کے عین مطابق چل رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے پروٹیکٹیڈ ایریاز کو مزید بڑھایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات وسیع تر ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات قومی سلامتی سے لے کر معاشیات اور پانی کے ذخائر تک پر پڑتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات ملک کی زرعی پیداوار، اور اس کے ساتھ گرمی کے موسم میں شدت سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
'درخت لگانے کے ساتھ ماحول دوست ٹیکنالوجی کا استعمال ضروری ہے'
جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمینٹل اسٹڈیز سے وابستہ ڈاکٹر معظم علی خان نے رپورٹ کے مندرجات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے ملک کے مختلف علاقوں پر مختلف اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جیسے ساحلی علاقوں میں ہمارے ہاں اب تک زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت پر فی الوقت کوئی فرق نہیں پڑ رہا مگر کم سے کم درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔
اُن کے بقول یہ فرق کم ہونے سے مون سون پیٹرن میں خلل پڑ رہا اور وہ تبدیل ہو رہا ہے۔ دریائے سندھ کا بہاؤ کم ہونے سے سمندری پانی اوپر کی جانب آ رہا ہے۔ ساحلی علاقوں میں خشک سالی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے جب کہ بارشوں کے دورانیے میں کمی آ رہی ہے۔ بارشیں کلاؤڈ برسٹ کی شکل میں انتہائی شدید نوعیت اور مختصر مدت کے لیے ہو رہی ہیں۔
اسی طرح اگر شمالی علاقوں کی بات کی جائے تو ایک جانب گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ درجۂ حرارت میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ وہاں پر بھی خشک سالی کا عرصہ بھی بڑھ رہا ہے۔
اسی طرح ملک میں بھر میں اس سال سردیوں کا دورانیہ بڑھ گیا ہے اور درجۂ حرارت ابھی تک کئی علاقوں میں منفی میں ہے۔ جب یہ صورتِ حال ہوتی ہے تو زرعی ملک ہونے کے ناطے یہاں مختلف فصلوں، پھل پھول وغیرہ بے حد متاثر ہو رہے ہیں۔ اور اس طرح فصلوں کی پیداوار شدید متاثر ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹر معظم علی خان کا کہنا ہے کہ درخت لگانا تو اولین ترجیح ہونی چاہیے لیکن نہ صرف شجرکاری بلکہ اس کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا حصول بھی ضروری ہے جس سے ماحولیاتی آلودگی کم کرنے میں مدد ملے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان کا دنیا بھر میں زہریلی گیس کے اخراج میں حصہ ایک فی صد سے بھی کم ہے لیکن ہم اس سے متاثر ہونے والوں کی فہرست میں سرِ فہرست ہیں۔ اس میں ترقی یافتہ ممالک کو آگے آنا ہے اور ترقی پذیر ممالک، پسماندہ ممالک کو ٹیکنالوجی کی منتقلی اور مالی معاونت کرنا ہو گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کے ساتھ اس مقصد کے لیے لوگوں میں بڑے پیمانے پر شعور اُجاگر کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے کیوں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو زائل کرنے کے لیے صرف حکومتیں ہی نہیں بلکہ ہر شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔