امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوسرے روز ایوانِ نمائندگان کے ارکان نے اپنے دلائل کے ساتھ ساتھ سابق صدر کے بیانات کی نقول اور چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر حملے کی ویڈیو بطور ثبوت پیش کی۔
مواخذے کی پیروی کرنے والے ارکان نے بدھ کو سینیٹم یں اپنا کیس پیش کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے کئی شواہد موجود ہیں جو سابق صدر ٹرمپ کے چھ جنوری کو کانگریس کی عمارت پر حملے میں ان کے کردار اور ملوث ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
ریاست کولوراڈو سے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن جو نگوس اور ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے کانگریس مین جواکن کاسٹرو نے ویڈیو کلپس کی مدد سے سابق صدر کی ان تقاریر میں سے اقتباس پیش کیے، جس میں وہ اپنے پیروکاروں اور حامیوں کو یہ کہتے دیکھے جا سکتے ہیں کہ وہ کبھی بھی تین نومبر 2020 کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کریں گے اور یہ کہ ان کے حامیوں کو اپنے حق کے لیے لڑنا ہو گا۔
اس موقع پر ٹرمپ کی اُس تقریر میں سے اقتباسات بھی دکھائے گئے جو انہوں نے اُس وقت کی جب کانگریس میں موجودہ صدر جو بائیڈن کی انتخابات میں کامیابی کی توثیق کی جا رہی تھی۔
چھ جنوری کو وائٹ ہاؤس کے باہر ٹرمپ کے اپنے حامیوں سے خطاب کے بعد ہجوم نے کانگریس کی عمارت کی طرف بڑھنا شروع کر دیا تھا۔
ایوان کے نمائندوں نے کانگریس کی عمارت پر حملے کے دوران موجودگی پر مبنی اپنے تجربات کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ حملہ آوروں کی ہنگامہ آرائی سے نہ صرف قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ امریکی جمہوریت کی ساکھ کو بھی سخت نقصان پہنچا۔
کانگریس اراکین نے ٹرمپ کی ٹوئٹس اور جلسوں سے خطاب کے حوالے بھی دیے اور کہا کہ انہوں نے اپنے حامیوں کو چھ جنوری سے پہلے متعدد بار الیکشن کے چوری کیے جانے کے الزامات عائد کرتے ہوئے اور جارحانہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے کارروائی کرنے پر اکسایا۔
ڈیموکریٹک ارکان نے خاص طور پر ٹرمپ کے اُن نعروں اور بیانات کے حوالے دیے جن میں انہوں نے حامیوں کو اکسانے کے لیے استعمال کیے۔
کیلی فورنیا سے ڈیموکریٹک رکن ایرک سوالول نے ٹرمپ کی مختلف ٹوئٹس اور بیانات کے حوالے دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ سابق صدر نے اپنے حامیوں کو پر تشدد کارروائیوں پر اکسایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے درجنوں بیانات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ چھ جنوری کو کانگریس پر حملے کی پہلے ہی سے منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
یاد رہے کہ منگل کو سینیٹ نے سابق صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کو آئینی قرار دیتے ہوئے اسے جاری رکھنے کی اجازت دی تھی۔ 56 ارکان نے مواخذے کا ٹرائل جاری رکھنے کے حق میں ووٹ دیا جب کہ 44 نے اس کی مخالفت کی۔
سابق صدر ٹرمپ کا دفاع کرنے والے ری پبلکن رہنماؤں کا کہنا ہے سینیٹ میں ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی محض وقت کا ضیاع ہے۔
ری پبلکن یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ اب امریکہ کے صدر نہیں رہے اور ان کے خلاف مواخذے کا مقدمہ چلانا بے سود ہے۔
ایوانِ نمائندگان نے 13 جنوری کو 74 سالہ سابق صدر کے خلاف مواخذے کی تحریک منظور کی تھی۔
مواخذے کے طریقہ کار کے مطابق اب ایوان نمائندگان کی ٹیم سینیٹ کے سامنے اس مقدمے کے حق میں دلائل دے رہی ہے۔ اس کے بعد سابق صدر ٹرمپ کے وکلا ان کے خلاف لگائے گئے الزامات کا دفاع کریں گے۔
فریقین کو اپنے اپنے دلائل دینے کے لیے 16، 16 گھنٹے دیے گئے ہیں۔
اس وقت 100 ارکان پر مشتمل سینیٹ کے ایوان میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن دونوں کے پاس پچاس پچاس سیٹیں ہیں جب کہ صدر ٹرمپ کا صدارتی مواخذہ کرنے کے لیے ایوان کے دو تہائی یعنی 67 ووٹوں کی ضرورت ہے۔
صرف پانچ ری پبلکن اراکینِ سینیٹ اس معاملے پر ڈیمو کریٹک پارٹی کے مؤقف کے حامی ہیں۔
ماہرین کے مطابق موجودہ سیاسی رجحان دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں جماعتوں کے ارکان کی اکثریت اپنے اپنے جماعتی مؤقف کے مطابق ہی ووٹ دے گی۔