امریکہ کی کانگریس میں ڈیموکریٹک اراکین نے درخواست کی ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سینیٹ میں اپنے مواخذے کے ٹرائل میں حلف اٹھاتے ہوئے شہادت کے لیے پیش ہوں۔ دوسری جانب ٹرمپ کے مشیر نے بتایا ہے کہ سابق صدر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
سابق صدر ٹرمپ کے خلاف عوام کو بغاوت پر اکسانے کے الزامات کے تحت آئندہ ہفتے سینیٹ میں کارروائی شروع ہو گی۔ اس سے قبل اس کارروائی کے مرکزی پراسیکیوٹر جیمی راسکن نے جمعرات کو ای میل کے ذریعے بھجوائے گئے ایک خط میں مطالبہ کیا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ ٹرائل شروع ہونے سے پہلے یا اس ٹرائل کے دوران شہادت کے لیے پیش ہوں۔
راسکن کا صدر ٹرمپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا ہے کہ "اگر آپ اس دعوت کو قبول نہیں کرتے تو ہم تمام حقوق محفوظ رکھتے ہیں بشمول اس حق کے کہ ہم ٹرائل میں یہ بات باور کرائیں کہ شہادت سے آپ کا انکار چھ جنوری کو آپ کے اقدامات سے متعلق ایک مضبوط اور مخاصمانہ مداخلت کی حمایت کرتا ہے۔"
ڈونلڈ ٹرمپ کے ایڈوائزر جیسن ملر نے کہا ہے کہ سابق صدر ایک غیر آئینی کارروائی میں شہادت کے لیے پیش نہیں ہوں گے۔
ملر کے اس بیان کے چند گھنٹے بعد ٹرمپ کے اٹارنی بروس کیسٹر اور ڈیوڈ شیئن نے کہا کہ راسکن کا خط یہ ثابت کرتا ہے کہ ڈیموکریٹس اپنے الزامات کو ثابت نہیں کر سکتے اور مواخذے کی کارروائی ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جسے اس طرح کے کھیل کھیلنے میں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے چھ جنوری 2020 کو اپنے حامیوں کو کانگریس کی عمارت کیپٹل ہل پر حملے کی ترغیب دی تھی۔
اس حملے میں کیپٹل پولیس کے اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ کیپٹل ہل پر حملے سے قبل سابق صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس کے قریب جمع ہونے والے اپنے ہزاروں حامیوں کو کہا تھا کہ "پوری قوت سے لڑیے۔"
کیپٹل ہل پر حملے کا واقعہ اُس وقت پیش آیا تھا جب تین نومبر 2020 کے انتخابات میں جو بائیڈن کی کامیابی کی باضابطہ تصدیق کے لیے کانگریس کا اجلاس جاری تھا۔
ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے کیپیٹل ہل کی جانب مارچ کیا اور ان میں سے بہت سے لوگ کیپیٹل ہل کی عمارت میں گھس گئے تھے جس کے نتیجے میں توثیق کا یہ عمل خلل کا شکار ہوا تھا۔
اس واقعے کے ایک ہفتے بعد ایوانِ نمائندگان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی منظوری دی تھی۔ اس عمل میں ری پبلکن پارٹی کے 10 ارکان نے بھی ڈیموکریٹس کا ساتھ دیا تھا۔