پاکستان اور بھارت میں متنازع کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں اطراف کے مکین پاکستان اور بھارت کے اعلیٰ عسکری حکام کے جنگ بندی سے متعلق مشترکہ بیان پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے طے شدہ طریقۂ کار کے مطابق 24 اور 25 فروری کی درمیانی شب معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول اور دوسرے سیکٹرز میں جنگ بندی پر عمل درآمد پر اتفاق کیا ہے۔
دونوں ممالک میں فوج کے مابین جھڑپوں کی وجہ سے ایل او سی کے دونوں اطراف کے شہریوں کو جانی اور مالی نقصان سے دو چار ہونا پڑتا تھا۔
'کم از کم سکون کا سانس تو لے پائیں گے'
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے اوڑی سے تعلق رکھنے والے شہری ارشاد احمد خواجہ کہتے ہیں کہ اب سرحد پر صورتِ حال کے بدلنے کی امید پیدا ہوئی ہے اور کم از کم سکون کا سانس تو لے پائیں گے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ارشاد احمد خواجہ نے کہا کہ دونوں ممالک کی افواج کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے وہ پِس رہے تھے اور آئے دن کی فائرنگ اور شیلنگ کے نتیجے میں وہ اپنے پیاروں کو کھو رہے تھے۔
ایک اور شہری بشیر احمد وٹھلو جو ‘اوڑی رورل ڈویلپمنٹ سوسائٹی’ کے چیئرمین بھی ہیں کا کہنا تھا کہ ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اب وہ رات کو اچھی طرح سے سو پائیں گے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے نکیال سیکٹر کے موہرہ گاؤں کے مکین تصدق حسین نے وائس آف امریکہ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ خوش ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اس عہد پر واقعی عمل بھی ہو گا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نومبر 2003 میں طے پایا تھا۔ کئی سال تک اگرچہ اس معاہدے کی پاسداری ہوتی رہی۔ البتہ وقت گزرنے کے ساتھ کئی بار معاہدے کی خلاف ورزیاں بھی ہوتی رہیں۔
ایل او سی کے ساتھ ساتھ 198 کلو میٹر لمبی سیالکوٹ-جموں سرحد جسے پاکستان میں 'ورکنگ باؤنڈری' اور بھارت میں ‘بین الاقوامی سرحد’ کہا جاتا ہے پر تعینات افواج بالخصوص 2010 کے بعد ایک دوسرے کے ٹھکانوں کو دوبارہ ہدف بنانے لگیں اور ہر بار انہوں نے سمجھوتے کی خلاف ورزی کے لیے ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیرایا۔
اس طرح کے واقعات میں اگرچہ دونوں ممالک کی افواج کا بھی جانی نقصان ہوا۔ لیکن اس سے سب سے زیادہ متاثر سرحدوں کے قریب آباد مکین ہوئے۔
'کاش یہ عہد و پیمان پہلے ہوئے ہوتے'
عسکری حکام کے مشترکہ اعلان کے ردِ عمل میں اوڑی کے بلہ کوٹ نامی گاؤں کے ایک شہری بشیر احمد ڈار نے کہا کہ کاش دو ملکوں کے درمیان یہ عہد و پیمان پہلے ہوا ہوتا یا 17 سال پہلے طے پائے فائر بندی کے سمجھوتے کی کبھی خلاف ورزی ہی نہ ہوئی ہوتی۔ تو وہ اپنی بیوی کو نہ کھوتے۔
بشیر کی 35 سالہ اہلیہ فاروقہ بیگم گزشتہ برس 19 نومبر کو شیلنگ کے ایک واقعے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
'خونریزی کا یہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے'
جموں و کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے بھی پاکستان اور بھارت کے عسکری حکام کے اس اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور اسے دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے خوش آئند قرار دیا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ جموں و کشمیر اور ‘نیشنل کانفرنس’ کے صدر فاروق عبد اللہ نے کہا ہے کہ یہ اقدام پائیدار امن کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل کانفرنس دونوں ممالک کے درمیان پائیدار دوستی اور اعتماد کی ہمیشہ خواہاں رہی ہے۔
ان کے بقول سرحدوں پر تناؤ اور جھڑپوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے جموں و کشمیر کے عوام ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خونریزی کا یہ انتہائی ناپسندیدہ سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند ہونا چاہیے۔
استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد ‘حریت کانفرنس’ کے ایک دھڑے (میر واعظ عمر فاروق) نے اعلامیے کو صحیح سمت میں اٹھنے والا قدم قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
تاہم حریت کانفرنس کے اس دھڑے نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پورے خطے میں باہمی فائدہ مند اور پائیدار امن کے حصول کے لیے بھارت اور پاکستان کی حکومتوں کو بنیادی مسئلے یعنی مسئلہ کشمیر کو ریاستی عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔
اتحاد نے زور دے کر کہا کہ یہ وہی مسئلہ ہے جو خطے میں تنازعات اور تشدد کی وجہ ہے۔