آسٹریلیا کے جنوب مشرقی علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ سیلاب نے نظامِ زندگی مفلوج کر دیا ہے جب کہ ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے سیکڑوں اسکول بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
کئی دنوں سے جاری موسلا دھار بارشوں سے ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے ساحلی علاقے زیرِ آب آ گئے ہیں جب کہ سڈنی کے بھی کچھ علاقوں کو سیلابی صورتِ حال کا سامنا ہے۔
حکام کے مطابق گزشتہ کئی دہائیوں میں آنے والا یہ سب سے بڑا سیلاب ہے۔
پیر کو 80 لاکھ شہریوں کو بتایا گیا کہ وہ غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور اگر ممکن ہے تو گھر سے کام کریں۔ یہ ہدایات ایسے وقت میں آئی ہیں جب بارش سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں 24 گھنٹوں کے دوران 10 انچ تک بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ صرف ایک سال قبل یہ علاقہ پانی کی قلت اور طویل خشک سالی کا سامنا کر رہا تھا۔ یہاں پانی محدود تھا اور جنگلوں میں ایسی آگ لگی تھی جس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔
سائنس دان خبردار کر چکے ہیں کہ آسٹریلیا کو موسمیاتی تغیر کے سبب شدید موسموں کا تواتر سے سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نیو ساؤتھ ویلز کی پریمیئر گلیڈیس بیریجکلیئن کا کہنا ہے کہ تقریباً 18 ہزار افراد کو گھروں سے نکلنے کی ہدایات کی گئی ہیں اور 38 علاقوں کو آفت زدہ قرار دیا گیا ہے۔
ریاست کی منتظم نے مزید کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ریاست کو تاریخ میں اس طرح کے تیزی سے بدلتے شدید موسموں کا سامنا رہا ہو وہ بھی ایسے میں جب عالمی وبا کرونا کا سامنا ہے۔
دوسری جانب ہنگامی امداد کے اداروں کو مدد کے لیے آٹھ ہزار آٹھ سو ٹیلی فون کالز موصول ہوئی ہیں۔ سیکڑوں افراد کو علاقے میں آفت آنے کے بعد سیلاب کے پانی سے بچایا گیا ہے۔
ریاست کا وسطی شمال کا ساحلی علاقہ خاص طور پر اس سیلاب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ بیریجکلیئن نے اعلان کیا ہے کہ علاقے کو سو سال میں پہلی مرتبہ اس نوعیت کی تباہی کا سامنا ہے۔
سڈنی کی ہاک بیری نیپیئن ویلی میں دریا میں پانی کی سطح بہت بلند ہے اور اس لیول تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی جو 1961 کے بعد نہیں دیکھا گیا۔
واراگیمبا ڈیم، جو شہر کے لیے پینے کے پانی کا مرکزی ذریعہ ہے، ہفتے کی سہ پہر بھر گیا تھا اور اس کا پانی ڈیم سے باہر آ گیا تھا۔
بعض متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو پیر کو پانی کی سطح کم ہونے پر گھروں میں واپس جانے کی اجازت دے دی گئی لیکن دیگر شہریوں کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا ہے کیوں کہ ان کے علاقوں کو پہلی مرتبہ بڑھتے ہوئے پانی کا سامنا تھا۔
اگرچہ ابھی تک کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ملی لیکن حکام نے صورتِ حال سے متعلق انتباہ جاری کیا ہے اور اس کو زندگیوں کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
محکمۂ تعلیم کے حکام نے کہا ہے کہ دو سو سے زیادہ اسکول بند کر دیے گئے ہیں جن میں کچھ وہ اسکول بھی شامل ہیں جنہیں سیلاب کے سبب نقصان پہنچا ہے۔
ادھر انشورنس کمپنیوں کو نقصانات کے ازالے کے لیے گزشتہ چند دنوں کے دوران پانچ ہزار سے زیادہ درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔
جن علاقوں کو باضابطہ طور پر آفت زدہ زون قرار دیا گیا ہے وہاں حکومت کی طرف سے ہر بالغ شہری ایک ہزار آسٹریلین ڈالر جب کہ ہر بچہ چار سو ڈالر کی امدادی رقم کا اہل ہو گا۔
محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جس سے سیلابی صورتِ حال میں شدت آ سکتی ہے۔
صحت کے حکام نے کہا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کے سبب سڈنی اور ارد گرد کے علاقوں میں کرونا وائرس کی ویکسین لگانے کے عمل کو پہلے ہی رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
آسٹریلیا میں عوام میں بڑے پیمانے پر ویکسین لگانے کی مہم پیر سے شروع ہونا تھی لیکن سپلائی کے نظام میں خلل کے باعث حکومت کا اعلان کردہ شیڈول متاثر ہوا ہے۔