اس ہفتے امریکی ریاست کولوراڈو کے ایک گروسری سٹور میں ہونے والی فائرنگ کے واقعے سے چند روز قبل امریکی ریاست جارجیا کے شہر اٹلانٹا میں بھی فائرنگ کے واقعے میں آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان میں چھ ایشیائی امریکی خواتین تھیں۔ اس حملے کے الزام میں اکیس برس کے سفید فام رابرٹ لانگ کو گرفتار کیا گیا ہے، اور اسے ایشیائی امریکی کمیونٹی کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر گمراہ کن بھی ہوسکتا ہے۔
حملے کے ملزم نے کہا ہے کہ اس نے یہ فائرنگ ایشیائی افراد سے نفرت کی وجہ سے نہیں کی ہے۔ بہت سے ایشیائی امریکیوں کے مطالبے کے باوجود، پولیس نے رابرٹ کو نفرت پر مبنی جرم کا مرتکب قرار نہیں ٹھہرایا۔
وائس آف امریکہ کے مسعود فریوار کی رپورٹ کے مطابق تفتیش کار ابھی تک جرم کا جواز تلاش نہیں کر سکے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ اس نے ایسا 'جنسی ترغیب' سے بچنے کے لیے کیا، نہ کہ نفرت کی بنا پر۔ ایشیائی امریکیوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے زیادہ تر افراد، رابرٹ لانگ کےنسلی خاکے پر پورا نہیں اترتے۔
امریکی ادارہ مردم شماری کی تعریف کے مطابق ایشیائی امریکیوں سے مراد ایشیائی ملکوں، چین، فلپائن، ویتنام، کوریا، جاپان، جنوبی ایشیا، اور دیگر ایشیائی ملکوں سے آکر امریکہ میں آباد ہونے والے باشندے ہیں۔
نیو یارک شہر میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں، گزشتہ سال 2020 میں 2019 کے مقابلے میں 9 گُنا اضافہ ہوا۔ محکمہ نیو یارک پولیس میں نفرت اور شدت پسندی پر مبنی جرائم کا ڈیٹا اکٹھا کرنے والے سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال ایسے جرائم میں گرفتار ہونے والے 20 افراد میں سے صرف دو سفید فام، جبکہ گیارہ افریقی النسل امریکی، چھ سفید فام ہسپانوی اور ایک سیاہ فام ہسپانوی تھا۔
سینٹر کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائین لیوِن کے نزدیک یہ ڈیٹا ہلا دینے والا تھا۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ نتائج اُن بہت سے افراد کے قائم کردہ مفروضوں کے بالکل برعکس تھے کہ ایشیائی مخالف حملہ آور ناراض سفید فام افراد تھے، جو کرونا وائرس سے پھیلنے والی عالمی وبا کا ذمہ دار چین کو سمجھتے ہیں۔
امریکی فیڈرل بیورو آف اِنویسٹی گیشن یعنی (ایف بی آئی) نفرت پر مبنی جرائم کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ ایک ایسا جرم ہے جس کے پیچھے نسل، مذہب، جنسی رجحان، صنف اور دیگر عناصر کار فرما ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر زد و کوب کرنا یا لوٹ مار کرنا۔
تاریخی اعتبار سے ایف بی آئی کو رپورٹ ہونے والے زیادہ تر جرائم میں سفید فام افراد ملوث رہے ہیں۔ تاہم، نیو یارک شہر میں گرفتاریوں کا ڈیٹا اس حساس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتاتا ہے کہ ایشیائی امریکی برادری پر ہونے والے حملوں کے زمہ دار افراد اکثرغیر سفید فام امریکی تھے۔
امریکہ میں پولیس کے زیادہ تر محکمے اس طرح کا ڈیٹا شائع نہیں کرتے،لیکن تفصیلی شہادت یہ بتاتی ہے کہ جو رجحان نیو یارک میں نظر آیا، وہ امریکہ کے دیگر شہروں میں بھی ہے۔
ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم سے نمٹنے کے لئے نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ نے گزشتہ سال ایک خصوصی ٹاسک فورس تشکیل دی تھی ۔ ٹاسک فورس کے سربراہ، ڈپٹی انسپیکٹر سٹیورٹ لو کہتے ہیں کہ وہ صرف اعداد و شمار کی تصدیق کر سکتے ہیں، جو اکثر گمراہ کن ہو سکتے ہیں۔
سٹیورٹ لو کا ایک ای میل میں کہنا ہے کہ وہ صرف حقائق ہی بیان کر سکتے ہیں، جس کیلئے سیاہ فام اور ایشیائی پولیس افسران پر مشتمل اس ٹاسک فورس کو تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ایشیائی نسل افراد کے خلاف ایسے حملوں میں اضافے پر سیاہ فام برادری کے رہنماؤں نے سب سے پہلے آواز اٹھائی تھی۔
نفرت پر مبنی جرائم پر دو کتابوں کے مصنفہ اور نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی میں سوشیالوجی کے پروفیسر جیک مک ڈیوِٹ نے خبردار کیا کہ ڈیٹا سے بہت کچھ اخذ نہیں کرنا چاہئیے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی بھی سال میں کسی ایک علاقے میں، کسی ایک برادری کے خلاف، پولیس کو رپورٹ ہوئے نفرت پر مبنی جرائم کے ڈیٹا کو قومی سطح پر دیکھا جاتا ہے تو اس میں خلاف معمول اعداد و شمار نظر آتے ہیں، کیونکہ بہت سے جرائم پولیس کو رپورٹ ہوئے ہی نہیں تھے۔ تاہم مک ڈیوٹ کہتے ہیں کہ "دیگر برادریوں نے بھی خود پر ہونے والے حملوں کو اسی انداز سے جانچنے کی کوشش کی ہے، جس انداز سے ہماری سفید فام برادری ایک عرصے سے کرتی چلی آرہی ہے"۔
ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ کیلیفورنیا سٹیٹ یونیورسٹی کے سینٹر فار سٹڈی آف ہیٹ اینڈ ایکسٹریم ازم کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، امریکہ کے سب سے زیادہ آبادی والے 16 شہروں میں نفرت پر مبنی جرائم میں گزشتہ سال 2020 میں اس سے پچھلے سال 2019 کی نسبت 150 گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ بظاہر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بعض تقاریر اور بیانات کو بھی قرار دیاجاتا ہے۔
تاہم سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ترجمان اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بارہا ’کنگ فو‘ جیسے الفاظ کا استعمال، جو انہوں نے کرونا وائرس کے پھیلاو کے حوالے سے ادا کئے، نسل پرستی پر مبنی تھے۔
ایک قدامت پرست ایشیائی امریکی مبصر اور ریڈیو ٹاک شو کی میزبان مشعل مالکِن کہتی ہیں کہ امریکہ کے بڑے شہروں میں ایشیائی امریکیوں کے خلاف جرائم کی تازہ لہر صدر ٹرمپ کی غلطی نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کی ذمہ داری صرف اور صرف حملہ آوروں پر عائد ہوتی ہے، جن میں زیادہ تر کا تعلق غیر سفید فام برادریوں سے ہے۔
تاہم نیو یارک شہر میں قائم کولمبیا یونیورسٹی میں سوشیالوجی کی ایشیائی امریکی پروفیسر جینیفر لی کہتی ہیں کہ ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت کو صدر ٹرمپ کے بیانات سے جدا کرکے نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری طرف ایشیائی امریکیوں پر حملوں میں اضافے نے خود ایشیائی امریکی کمیونٹی کی رائے کو منقسم کر دیا ہے۔