اسرائیل میں منگل کو ہونے والے انتخابات میں کسی واحد جماعت کو واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے پہلی مرتبہ مبصرین یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ پارلیمانی تعطل کو دور کرنے کی کنجی ممکنہ طور پر ایک عرب مسلم جماعت کے ہاتھ میں ہے۔
امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کے حالیہ انتخابات کے نتائج، اور وزیر اعظم نیتن یاہو کا مستقبل، اب بظاہر چند نشستیں حاصل کرنے والی چھوٹی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے، جن میں ایک نئی ابھرتی ہوئی عرب مسلم جماعت بھی شامل ہے، جسے Ra'am کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس جماعت کو انتخابات میں چار نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔
اخبار کی رپورٹ کے مطابق، نیتن یاہو کی جماعت کو اپنے انتہائی قدامت پسند اتحادیوں کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں 52 نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ اسرائیلی پارلیمان کی، جسے کنیسٹ بھی کہا جاتا ہے، کُل 120 نشستیں ہیں۔ نیتن یاہو کی مخالف، منقسم جماعتیں ہیں، جنہیں حاصل ہونے والی مجموعی نشستوں کی تعداد 57 ہے۔ جبکہ کسی بھی فریق کو پارلیمان میں حکومت بنانے کے لیے درکار 61 نشستیں حاصل نہیں ہو سکیں۔
اخبار کے مطابق، اب پلڑا دو چھوٹی جماعتوں کے حق میں جھکا ہے۔ ان میں سے ایک نییتن یاہو کے پرانے اتحادی کی قیادت میں قدامت پسند یمینا نامی جماعت ہے جسے 7 نشستیں ملیں ہیں اور دوسری یونائیٹد عرب اسلامسٹ جماعت ہے جسے عام طور پر Ra'am کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اخبار دی اسرائیل ٹائمز کے مطابق، اس کی وجہ سے Ra'am کے لیڈر منصور عباس غیر متوقع طور پر بادشاہ گر کے کردار میں آ گئے ہیں۔ روایتی طور پر اسرائیل میں عرب جماعتیں حکومتی تشکیل میں اپنا اثر قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہو ئیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی سیاسی جماعتوں نے جمعرات کے روز سے اس امکان پر غور کرنا شروع کیا ہے کہ کیا کوئی عرب مسلم جماعت حکومت کی تشکیل اور نیتن یاہو کے مستقبل کی آئندہ سیاسی سمت کا تعین کرسکتی ہے؟۔
اسرائیل میں حکومت سازی کے لیے 120 نشستوں پر مشتمل پارلیمان میں 61 ارکان کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ اگر کوئی جماعت ایوان میں 61 ارکان کی حمایت حاصل نہ کر سکے تو دوبارہ انتخاب لڑنا ہوتا ہے۔
گزشتہ دو برس کے دوران اسرائیل میں کسی جماعت کی ایوان میں واضح اکثریت نہ ہونے کی بنا پر تین انتخابات ہو چکے ہیں اور منگل کو الیکشن کی یہ چوتھی کڑی تھی۔
اگرچہ منگل کو ہونے والی پولنگ کے حتمی نتائج رواں ہفتے کے آخر تک سامنے آنے ہیں۔ تاہم یہ پیش گوئیاں کی جارہی ہیں کہ نیتن یاہو کی قیادت میں کی جانے والی تیز ترین کووڈ-19 ویکسی نیشن مہم بھی انتخابات میں اُن کی فتح کے لیے کافی ثابت نہ ہوسکی۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ واضح پارلیمانی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اگر سیاسی جماعتوں میں ڈیڈ لاک دور نہ ہوا تو اسرائیل کو پانچویں الیکشن کی جانب جانا پڑ سکتا ہے۔
ایران قیادت اسرائیل کے انتخابی تعطل کو کیسے دیکھ رہی ہے؟
دوسری طرف اسرائیل میں انتخابی نتائج کے حوالے سے ایرانی قیادت خاموش ہے ۔ ایرانی قیادت نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا کہ انہیں نیتن یاہو کے وزیر اعظم کا عہدہ اپنے پاس رکھنے یا نہ رکھنے سے کوئی دلچسپی ہے۔ ایران کے سرکاری حمایت یافتہ میڈیا میں جمعرات کو دیر گئے تک چھپنے والے انگریزی زبان کے چار مضامین میں سے صرف ایک میں بڑے ہی مختصر انداز میں بات کی گئی ہے کہ انتخابی نتائج اسرائیل کے ایران سے متعلق رویے کا تعین کریں گے۔
بدھ کے روز، ایرانین لیبر نیوز ایجنسی میں چھپنے والے مضمون کے اختتامی پیراگراف میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو کی ممکنہ نئی حکومت جس میں ممکنہ طور انتہائی قوم پرست جماعتیں شامل ہوں گی، امریکہ کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی سے متعلق سفارتکاری میں امریکی صدر جو بائیڈن کی سخت مخالفت کریں گی۔
یونیورسٹی آف ہائیفا میں اسرائیل سے متعلق معاملات کی محقق، تھمار گندِن کا کہنا ہے کہ جب تک کوئی اتحاد یا اشتراک، پارلیمان میں اپنی اکثریت ظاہر نہیں کرتا، اس وقت تک نیتن یاہو ہی وزیر اعظم کے منصب پر فائز رہیں گے، اور اس میں ہفتوں اور شاید مہینوں لگ سکتے ہیں۔
ایسے میں تل ابیب یونیورسٹی میں ایران سے متعلق امور کے اسرائیلی پروفیسر، ڈیوڈمیناشری کہتے ہیں کہ ایران جانتا ہے کہ اگر وہ امریکہ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ اسرائیل کو نقصان نہیں پہنچا سکتے یا کھلے عام اس سے لڑائی نہیں کر سکتے ۔
وائس آف امیریکہ کی فارسی سروس سے بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک سے تعلقات میں ایران کے رویے کے حوالے سے جو بڑے سوالات درپیش ہیں، ان میں اسرائیل کا معاملہ شاید ایک فٹ نوٹ جیسا ہی ہے۔