رسائی کے لنکس

اسرائیل: نیتن یاہو کو بدعنوانی کی فردِ جرم کے باوجود حکومت سازی کی اجازت


سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ ایسی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں کہ پارلیمان کے رکن نیتن یاہو کو حکومت سازی سے روکا جائے۔ (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ نے اپنے متفقہ فیصلے میں قرار دیا کہ ایسی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں کہ پارلیمان کے رکن نیتن یاہو کو حکومت سازی سے روکا جائے۔ (فائل فوٹو)

اسرائیل کی سپریم کورٹ نے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت فردِ جرم عائد ہونے کے باوجود حکومت سازی کی اجازت دے دی ہے۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے دائیں بازو کی جماعت لیکوڈ پارٹی کے نیتن یاہو اور حزب اختلاف کی جماعت بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے بینی گینز کی اتحادی حکومت کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

گزشتہ ایک سال میں اسرائیل میں تین بار انتخابات ہو چکے ہیں تاہم کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔

ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ عرصے تک وزیرِ اعظم رہنے والے بن یامین نیتن یاہو پر پچھلے سال نومبر میں رشوت ستانی، دھوکہ دہی اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے۔ نیتن یاہو ان الزامات کی صحت سے انکار کرتے رہے ہیں۔

سپریم کورٹ کے 11 ججز پر مشتمل پینل نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ ایسی کوئی قانونی بنیاد موجود نہیں کہ کنیست (اسرائیل کی پارلیمان) کے رکن نیتن یاہو کو حکومت سازی سے روکا جائے۔

پینل کا فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ نیتن یاہو کو اس وقت تک بے قصور ہی گردانا جائے گا جب تک ان پر الزامات ثابت نہ ہو جائیں۔

اسرائیل فلسطین امن منصوبے پر واشنگٹن میں ردِ عمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:53 0:00

خیال رہے کہ نیتن یاہو پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک میڈیا ٹائیکون کو سیاسی فوائد دینے کا وعدہ کیا تھا جس کے بدلے میں ان کے حق میں خبریں نشر کی جانی تھیں۔ نیتن یاہو پر قیمتی تحائف لینے کے بھی الزامات ہیں۔

وزیرِ اعظم نیتن یاہو تمام الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں اور وہ ان الزامات کو سیاسی الزامات کہتے ہیں۔

نیتن یاہو کے خلاف تین الزامات کے تحت مقدمے کی سماعت 24 مئی سے شروع ہونی ہے۔

اسرائیل کے قانون کے مطابق کوئی بھی وزیر جس پر فرد جرم عائد ہو جائے اسے لازمی اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا ہوتا ہے۔ تاہم وزیرِ اعظم کے حوالے سے اس پر ابہام موجود ہے کہ اس قانون کا اطلاق وزارت عظمیٰ کے منصب پر موجود شخص پر ہو سکتا ہے یا نہیں۔

اسرائیل گزشتہ سال کے آغاز سے ہی سیاسی بحران کا شکار تھا۔ ایک سال سے زائد عرصے میں تین بار انتخابات ہونے کے باوجود نیتن یاہو اور بینی گینتز حکومت بنانے میں ناکام رہے تھے۔

کسی بھی جماعت کو حکومت سازی کے لیے 120 رکنی ایوان میں 61 نشتیں درکار ہیں۔ تاہم مارچ میں تیسری بار ہونے والے انتخابات میں بھی کوئی جماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی۔

حزبِ اختلاف کے رہنما بینی گینز پہلے کہتے رہے کہ وہ ایسی کسی اتحادی حکومت میں شامل نہیں ہوں گے جس کے وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہو۔

البتہ گزشتہ ماہ انہوں نے اپنی رائے تبدیل کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ وہ کرونا وائرس کے شکار اسرائیل کے شہریوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں جب کہ چوتھی بار انتخابات کا راستہ بھی روکنا چاہتے ہیں۔

نیتن یاہو کی جماعت لیکوڈ پارٹی اور بینی گینز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی نے اپنے ایک حالیہ مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ آئندہ ہفتے تک حکومت سازی کا عمل مکمل کر لیں گے۔

نیتن یاہو اور بینی گینز کے درمیان تین سال کے لیے شراکت اقتدار کا معاہدہ ہوا ہے۔ معاہدے کے تحت 18 ماہ تک نیتن یاہو وزیرِ اعظم رہیں گے جس کے بعد اکتوبر 2021 میں بینی گینز وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھال لیں گے۔

دوسری جانب معاہدے کے مخالفین کا کہنا ہے کہ متبادل وزیرِ اعظم کا تقرر آئین کے تحت غیر قانونی عمل ہے۔

خیال رہے کہ دونوں جماعتوں میں شراکتِ اقتدار کے خلاف گزشتہ ہفتے اسرائیل کے مختلف شہروں میں احتجاج بھی ہوا تھا۔

اتحادی حکومت کے حوالے سے کہا جا رہا ہے کہ اس کے سامنے سب سے اہم معاملہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ ہو گا۔

اس منصوبے میں فلسطین کے زیرِ انتظام علاقے میں بہت اضافہ کیا ہے۔ لیکن اس میں مغربی کنارے کی بڑی بستیوں پر اسرائیلی اقتدار کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن معاہدے کے تحت یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت ہو گا اور ابو دس فلسطین کا دارالخلافہ کہلائے گا اور دونوں کے درمیان کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو سرحد کا درجہ حاصل ہو گا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجوزہ امن معاہدے کو تاریخی قرار دیا تھا جب کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے اس معاہدے کو تاریخ کے منہ پر طمانچہ قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

XS
SM
MD
LG