رسائی کے لنکس

شام کی فضائیہ نے 2018 میں ممکنہ طور پر کلورین بم استعمال کیا، کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے کی نئی رپورٹ


شام میں کلورین گیس بم کا نشانہ بننے والے افراد آکسیجن ماسک کے ذریعے سانس لے رہے ہیں۔ اگست 11, 2016. فائل فوٹو
شام میں کلورین گیس بم کا نشانہ بننے والے افراد آکسیجن ماسک کے ذریعے سانس لے رہے ہیں۔ اگست 11, 2016. فائل فوٹو

کیمیائی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے عالمی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کے پاس یہ یقین کرنے کیلئے معقول جواز موجود ہے کہ شام کی فضائیہ نے فروری 2018 میں باغیوں کے زیر قبضہ علاقے ادلیِب کی ایک آبادی پر کلورین بم استعمال کیا تھا۔

خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق، شام کی حکومت کی جانب سے اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ شام اور اس کی فوجی اتحادی روس نے گزشتہ 10 سال سے تسلسل کے ساتھ صدر بشار الاسد اور باغی قوتوں کے درمیان جاری تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے حملے ان کے مخالفین کی جانب سے شام کی حکومت کو مورد الزام ٹہرانے کیلئے کئے جاتے ہیں۔

کیمیاوی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے او پی سی ڈبلیو (OPCW) کی تحقیقاتی شاخ نے اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ فروری 2018 میں ساراقِب شہر کے ال طلیل علاقے میں بیرل بم میں رکھے گئے کلورین گیس کا سیلنڈر گرائے جانے سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی تھی۔ تاہم، درجن بھر افراد کو کیمیائی زہر خورانی کی علامات ظاہر ہونے پر علاج معالجہ فراہم کیا گیا تھا، جس میں متلی ہونا، آنکھوں کی خارش، سانس لینے میں دقت، اور کھانسی ہونا شامل ہے۔

کلورین، ایسا کیمیکل نہیں ہے، جس کے استعمال پر عالمی سطح پر پابندی عائد ہو، لیکن 1997 میں ہیگ میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے او پی سی ڈبلیو نے ایک معاہدے کے تحت مسلح تنازعات میں کسی کیمیائی مواد کے استعمال پر پابندی عائد کر دی تھی۔

شام میں جمہوریت پسند مظاہرین پر 2011 میں حکومت کی جانب سے تشدد کے کے بعد، صورتحال خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی تھی۔ اس تنازعے میں ،روس اور ایران، صدر اسد کی حکومت کےساتھ کھڑے رہے، جب کہ امریکہ، ترکی اور چند عرب ممالک نے بعض باغی گروپوں کی حمایت جاری رکھی۔

او پی سی ڈبلیو کی تحقیقاتی ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ شام کے جنگی طیاروں اور ایک ہیلی کاپٹر نے مارچ 2017 میں شام کے علاقے حما کے ایک گاؤں میں کلورین اور سیرین گیس کےبم گرائے تھے۔

اپنی حالیہ رپورٹ میں کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کے ادارے نے شام کی سرکاری افواج کو اس واقعے میں ملوث قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس بات کو تسلیم کرنے کے معقول جواز موجود ہیں کہ شام کی سرکاری ایئر فورس کے ایک ہیلی کاپٹر سے، جو شام کی فوج کے ایلیٹ یونٹ ٹائیگر فورس کا حصہ تھا، کم ازکم ایک سلنڈر گرایا گیا تھا، جس میں کلورین گیس بھری ہوئی تھی۔

ٹائیگر فورس شام کی فوج کا وہ ایلیٹ یونٹ ہے، جسے جنگ کے دوران، زیادہ تر، چھاپہ مار کارروائیوں کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم، صدر اسد نے روس اور ایران کی حمایت سے زیادہ تر علاقے واپس لینے کے بعد، ان حملوں میں کمی کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تمام ثبوت ساراقب شہر کی حدود میں ٹائیگر فورسز کی موجودگی کا اشارہ دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس وقت گیس لیک ہوئی، اس وقت بمباری کے مقام پر ایک ہیلی کاپٹر کو پرواز کرتے دیکھا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ بمباری کے مقام سے جمع کئے گئے نمونوں کی جانچ کی گئی اور وہاں کلورین گیس سے آلودگی پھیلنے کے دیگر ممکنہ ذرائع پر غور کیا گیا، لیکن OPCW کی ٹیم کو ایسی کوئی علامت نظر نہیں آئی جس سے یہ اشارہ ملتا کہ یہ کارروائی صدر اسد کے مخالفین کی جانب سے کی گئی۔

انویسٹی گیشن میکینزم کہلانے والی اقوام متحدہ اور او پی سی ڈبلیو کی مشترکہ ٹیم کو 2015 اور 2017 کے دوران، شام کی سرکاری افواج کی جانب سے متعدد موقعوں پر سرین اور کلورین گیس سے بھرے بیرل بموں کے استعمال کے شواہد ملے تھے۔ یہ بھی پتہ چلا تھا کہ دہشت گرد تنظیم داعش نے مسٹرڈ گیس کا استعمال کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG