امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ صدر جوبائیڈن کی جانب سے افغانستان میں طویل ترین جنگ کے خاتمے اور 11 ستمبر تک امریکی فوجیوں کے انخلا کے بعد کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ افغانستان میں کیا ہو گا۔
اتوار کو امریکی نشریاتی ادارے 'فوکس نیوز' کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ افغان سیکیورٹی فورسز، افغان حکومت اور افغان عوام کے وسائل، استعداد اور تربیت کے لیے جو کرسکتا تھا وہ انہیں فراہم کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ نے افغان حکومت اور افغان فورسز کی بھرپور معاونت کی ہے تاہم اب وقت آگیا ہے کہ امریکی فوجی اپنے گھر واپس آئیں اور افغان عوام اپنے ملک کے دفاع کے لیے قدم بڑھائیں۔
جیک سلیوان کے مطابق وہ یا کوئی بھی یہ ضمانت نہیں دے سکتا کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں کیا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی فوجیوں کا انخلا اس بات کی تصدیق ہے کہ امریکہ کو گزرے 20 برسوں کے بجائے اگلے 20 سال کی لڑائی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
سلیوان نے انٹریو کے دوران عراق سے امریکی فوج کے انخلا اور 2011 میں دوبارہ فوج بھیجنے کےعمل کے پھر سے افغانستاں میں دہرانے کے خدشات کے متعلق ایک سوال پر کہا کہ صدر بائیڈن کا افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں وہاں دوبارہ بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
مشیر قومی سلامتی نے امریکی نشریاتی ادارے کیبل نیوز نیٹ ورک (سی این این) کو بھی انٹرویو دیا جس کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا امریکہ افغانستان میں جنگ جیت گیا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ امریکہ نے القاعدہ کی موجودگی کو کم کر کے اور ان کے سربراہ اسامہ بن لادن کو 2011 میں پاکستان میں ہلاک کر کے 'اپنے مقاصد حاصل' کر لیے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں لڑی جانے والی امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے اور 11 ستمبر 2021 تک تمام فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر رکھا ہے۔
افغانستان میں دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں اب تک دو لاکھ 41 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں جس میں امریکی فوجی بھی شامل ہیں۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ اموات براہِ راست اس جنگ کی وجہ سے ہوئیں۔ جن میں 71 ہزار 344 عام شہری، دو ہزار 442 امریکہ کے فوجی اہلکار، 78 ہزار 314 افغان سیکیورٹی اہلکار اور 84 ہزار 191 مخالفین کی ہلاکتیں شامل ہیں۔
امریکی صدر کی جانب سے نائین الیون حملوں کے 20 برس مکمل ہونے کے موقع پر امریکی فوجیوں کی واپسی کا اعلان کیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن کے اس فیصلے پر واشنگٹن میں ملا جلا ردِعمل دیکھا گیا ہے۔
سینیٹ میں اقلیتی رہنما مچ میکونل نے اسے ایک بڑی غلطی اور دشمن کے مقابلے میں پیچھے ہٹنا قرار دیا ہے۔
سینیٹر لنزے گراہم کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ انتہائی خطرناک ہے۔
اس کے علاوہ کچھ ڈیموکریٹس بشمول سینیٹر رابرٹ میننڈیز جو چیئرمین امورِ خارجہ کمیٹی بھی ہیں، نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ شاید وہ حاصل نہیں کر سکا جو چاہتا تھا۔
تاہم دیگر قانون سازوں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے فوجیوں کے انخلا کے لیے بہت وقت گزر چکا ہے۔
صدر بائیڈن کے فیصلے پر ناقدین کہتے ہیں کہ 20 برس بعد فوجیوں کے انخلا کا فیصلہ افغانستان میں دہشت گردوں کی نئی پناہ گاہ بن سکتا ہے۔
دوسری جانب پینٹاگون کا کہنا ہے کہ منصوبہ ساز اب تک افغانستان سے مکمل انخلا کی تفصیلات پر کام کر رہے ہیں اور محفوظ اور مرحلہ وار انخلا کو یقینی بنانے میں مختصر اضافہ ممکن ہے۔