ایک اعلیٰ امریکی جنرل نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد، وہاں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے یا کسی نئے واقعے سے نمٹنا یا دہشت گردی کےخطرات سے نبرد آزما ہونا ایک آزمائش طلب مرحلہ ہوگا۔
انھوں نے یہ انتباہ منگل کے روز امریکی قانون سازوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ امریکی سنٹرل کمان کے سربراہ، جنرل فرینک مکینزی نے کہا کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد کسی دہشت گرد واقعے کی صورت میں یا پھر دہشت گردی کے کسی نئے خطرے سے نمٹنے کے لئے واپس لوٹنے میں سنگین مراحل اور خطرات درپیش آسکتے ہیں۔
مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے علاقوں کی کمان رکھنے والے کمانڈر نے یہ بیان ایسے وقت دیا ہے جب عسکری أمور کی منصوبہ سازی سے متعلق عہدیدار آئندہ ماہ افغانستان سے 2500 سے لیکر 3500 فوجی واپس لانے کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں، جس سے دو عشروں پر محیط لڑائی کا خاتمہ ممکن ہوگا۔
امریکی سنٹرل کمان کے جنرل کینتھ فرینک مکینزی نے کہا کہ ''میں اس بات کی اہمیت کو گھٹا کر پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میں معاملے کو رنگین شیشے چڑھا کر نہیں دیکھ سکتا، اور نہ ہی کہا جاسکتا ہےکہ یہ مرحلہ آسان ہوگا''۔ انھوں نے ایوان نمائندگان کی مصلح افواج کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ عین ممکن ہے کہ مسقتبل میں انسداد دہشت گردی کے معاملات درپیش آئیں جن کا مقابلہ ناگزیر ہو۔
بقول ان کے، '' اس ضمن میں ہم اپنے تمام وسائل کا جائزہ لے رہے ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کام کو معقول ترین، خطرات سے پاک طریقہ کار سے انجام دیا جا سکے''۔ انھوں نے کہا کہ یہ کام انتہائی دشوار ہو گا۔ مکینزی نے منگل کے روز قانون سازوں کو بتایا کہ انھیں کہا گیا ہے کہ وہ اگلے ماہ کے أواخر تک، وفاقی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن کے سامنے اس معاملے کے حل سے متعلق تمام ممکنہ تجاویز پیش کریں۔
ان کاکہنا تھا کہ ان کے علاوہ دیگر اہلکار بھی ممکنہ حل سے متعلق تجاویز پر غور کر رہے ہیں۔
منصوبہ جات اور ترجیحات پر مامور قائم مقام معاون سکریٹری دفاع، ایمنڈا ڈوری نے قانون سازوں کو بتایا کہ''سکیورٹی صورت حال سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے دباؤ رکھنے کیلئےتمام امور کو زیر غور لایا جا رہا ہے''۔
انھوں نے مزید کہا کہ''میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ صدر کی سربراہی میں قومی سلامتی کی ٹیم اپنے فیصلے کرتے وقت افغانستان کے مستقبل کے تمام تناظر پیش نظر رکھے ہوئے ہے''۔