امریکہ کے شہر منی ایپلس میں گزشتہ سال مئی میں پولیس اہلکار ڈیرک شاون کی گرفت میں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز بنانے والوں میں سے ایک سترہ سالہ لڑکی ڈینئیلا فریزر بھی تھیں۔ ڈینئیلا نے ویڈیو بنا کر اپنے فیس بک پر اپ لوڈ کر دی اور جارج فلائیڈ کا قتل ایک ایسی خبر بن گیا، جس نے اس واقعے کو امریکہ ہی نہیں، دنیا کے کئی شہروں میں مہینوں تک نسلی امتیاز کے خلاف جاری رہنے والے احتجاج میں تبدیل کر دیا۔
امریکہ میں نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جارج فلائیڈ کے قتل کے مقدمے میں منگل کے روز منی ایپلس کے سابق پولیس افسر ڈیرک شاؤن کے خلاف عدالتی فیصلہ، انصاف کی جانب ایک قدم ہے اور سوشل میڈیا پولیس تشدد کو روکنے میں ایک اہم ہتھیار ہے۔
امریکہ کی جارج میسن یونی ورسٹی کی طالب علم، شیلبی ایڈمز نے وائس آف امریکہ کی سودیکشا کوچی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت میں انصاف کی جانب ایک قدم ہے۔ ان کے بقول ’’غیر سفید فام نوجوان یہ جانتے ہیں کہ جب تک پولیس تشدد سے ہر ایک کی جان محفوظ نہیں ہو جاتی، تب تک یہ مکمل جیت نہیں ہے۔‘‘ ان کے مطابق ابھی بہت کام باقی ہے۔
انہوں نے نسلی تعصب کے خلاف سوشل میڈیا کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ویڈیوز کے بغیر ایسے واقعات کسی کے علم میں آئے بغیر وقوع پزیر ہو جاتے ہیں۔ ویڈیوز بنانے سے لوگوں کو احساس ہوا کہ ہمارے قانون کے نفاذ کے نظام میں کہیں نہ کہیں کچھ کمی موجود ہے۔
جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے واقعے کے دوران کئی دیگر افراد، جو پاس ہی کھڑے تھے اپنے سمارٹ فونز سے ویڈیوز بناتے رہے۔ ایسے ہی پولیس افسر ڈیرک شاؤن کے جسم پر نصب کیمرے سے بھی واقعے کی کچھ ویڈیو حاصل ہوئی۔ ان ویڈیوز سے دیکھا جا سکتا ہے کہ ارد گرد کھڑے لوگ پولیس افسر کو جارج فلائیڈ کی گردن سے گھٹنہ ہٹانے کا کہہ رہے ہیں۔
کالج آف ولیم اینڈ میری کی طالبہ لاساٹا ٹلڈار کہتی ہیں کہ یہ ڈینئیلا کی ہی ہمت تھی کہ انہوں نے ایسے خوفناک عمل کی ویڈیو بنا کر پورے امریکہ کو دکھائی۔ ان کے بقول ’’اسے دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ ایسے کتنے ہی واقعات ہوں گے جہاں پولیس جارج فلائیڈ کی طرز پر لوگوں کی ہلاکت کی ذمہ دار ہو گی لیکن وہ لوگوں کی نظروں سے چھپے رہے اور انصاف نہیں ملا۔‘‘
امریکی ریاست منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے دن راہ گیروں کے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا ’’جن لوگوں نے 25 مئی 2020 کے دن رک کر آواز اٹھائی، وہ انسانیت کا گلدستہ ہیں، چاہے وہ نوجوان تھے یا بوڑھے، مرد یا عورت، سفید فام یا سیاہ فام، ۔‘‘
ولیم اینڈ میری کالج کے طالب علم لیام فش کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو پولیس تشدد اور نسل پرستی کے خلاف آواز اٹھانے کا حوصلہ دیا ہے۔
ان کے بقول لوگوں میں ایسے واقعات کے خلاف عملی اقدام اٹھانے کی ہمت صرف اور صرف سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔لیکن اس کے ذہنی صحت پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
لیام فش کہتے ہیں کہ ان کی سیاہ فام گرل فرینڈ کا کہنا ہے کہ لوگوں کی جانب سے اس طرح کی پرتشدد ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے سے ان کے اعصاب شل ہو چکے ہیں۔
لیام کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ایسی ویڈیوز انتباہ کے ساتھ شئیر کرنی چاہئیے۔ ان کے خیال میں ایسی ویڈیوز غیر سفید فام افراد کے اعصاب کے لیے بہت بھاری ہو سکتی ہیں۔