کیا پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کی کوئی مناسب تعریف موجود ہے؟ ۔۔یہ سوال پاکستان میں شازو نادر ہی پوچھا جاتاہے۔ لیکن پاکستان سے باہر لوگ اس بارے میں بات بھی کرتے ہیں اور سوال بھی اٹھاتے ہیں۔
پاکستانی صحافی داود خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کی کوئی مناسب تعریف موجود ہی نہیں۔ ان کے بقول، حکومت کے لیے غالباً جبر صرف وہی ہے جس میں بندوق کی نوک پر کسی کو مذہب تبدیل کرنے یا کسی کے ساتھ شادی پر مجبور کیا جائے۔ اس کے علاوہ جو دیگر طرح کا استحصال کار فرما ہو سکتا ہے، اس پر دھیان نہیں دیا جاتا۔
داود خٹک کا کہنا تھا کہ، ’’لفظ فورسڈ ہے کیا؟ اس بارے میں کسی بھی خاندان کا ایک موقف ہو گا اور مذہبی حضرات کا نقظہ نظر مختلف۔ خاندان اس کو اغوا کہتا ہے اور مذہبی رہنما اس کو اپنی مرضی سے تبدیلی مذہب کا نام دیتے ہیں۔ پولیس ایسے مقدمات میں عام طور پر مدد نہیں کرتی۔‘‘
داود خٹک نے یہ اہم نکات واشنگٹن ڈی سی کے ایک تھنک ٹینک ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کی طرف سے منعقدہ ایک آن لائن مکالمے میں بات کرتے ہوئے اٹھائے۔ اس آن لائن ویبینار میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، بالخصوص سندھ میں ہندو لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور مسلمان مردوں سے زبردستی شادی کے واقعات کو روکنےکے لیے امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر ممالک اپنا کردار ادا کریں اور اس ضمن میں ذمہ دار افراد اور مذہبی اداروں پر پابندیاں عائد کی جائیں۔
'پاکستان میں ہندو اقلیت کی حالت زار' کے عنوان سے منعقد اس آن لائن گفتگو میں پاکستان کی سابق رکن قومی اسمبلی اور امریکہ میں ریلیجئیس فریڈم انسٹی ٹیوٹ میں سینئر فیلو فرح ناز اصفہانی، ریڈیو فری ایشیا، ریڈیو مشال کے سینئر ایڈیٹر داود خٹک، ہندو امریکن فاونڈیشن میں ہیومن رائٹس کی ڈائریکٹر دیپالی کلکرنی، ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے سنٹر فار ریلیجئس فریڈم کی ڈائریکٹر نینا شئیے نے مقررین کی حیثیت سے شرکت کی۔ پروگرام کی میزبانی اپرنا پانڈے نے کی جو ہڈسن انسٹی ٹیوٹ میں ہی انیشی ایٹو آن فیوچر آف انڈیا اینڈ ساوتھ ایشیا کی ڈائریکٹر ہیں۔
ویبینار کے آغاز میں میزبان اپرنا پانڈے نے سندھ میں ہندو کم عمر لڑکیوں کے اغوا، جبری تبدیلی مذہب اور پھر فی الفور ان کی کسی مسلمان مرد کے ساتھ شادی کے واقعات کا حوالہ دیا اور کہا کہ پاکستان کی سول سوسائیٹی، پاکستان کا ہیومن رائٹس کمشن اور دیگر سرگرم کارکن اور تنظیمیں متواتر ان واقعات کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔
صحافی داود خٹک نے حال ہی میں پاکستنان کے اندر ہندو اقلیتوں کو درپیش مسائل بالخصوص جبراً تبدیلی مذہب اور جبری شادی کے واقعات پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ستمبر دو ہزار بیس میں سندھ کا دورہ کیا تھا اور اس ضمن میں وہ سکھر، گھوٹکی، بدین اور تھرپارکر جیسے اضلاع میں گئے جہاں سے بالخصوص اس طرح کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔ داود خٹک نے اس دورے میں متاثرہ ہندو خاندانوں، بظاہر جبرا مذہب تبدیل کرنے والی نوجوان خواتین، مقامی صحافیوں، مقامی عہدیداروں، سیاسی و مذہبی راہنماوں اور حکمران جماعت کے لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کے پس منظر میں اپنے مشاہدات بیان کیے۔
داود خٹک کا کہنا تھا کہ اندرون سندھ میں طاقتور افراد ان کے بقول ان ’کنورژن ہبز‘‘ یعنی تبدیلی مذہب کے مراکز کو چلاتے ہیں جن میں سیاسی اور مذہبی تشخص رکھنے والی شخصیات شامل ہیں۔ ‘
انہوں نے بتایا کہ روینا جیسی لڑکی، دعوے کے مطابق، تبدیلی مذہب کے بعد پہلے سے چھ بچوں کے باپ کے ساتھ شادی کر لیتی ہے، لیکن کہیں سے یہ نہیں سنا کہ کسی ہندو مرد نے کسی مسلمان عورت سے شادی کے لیے مذہب تبدیل کیا ہو؟
انہوں نے بتایا کہ ہندو کمیونٹی اور انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ جب شناختی کارڈ بنوانے، ڈرائیونگ لائسنس، ووٹ ڈالنے، نوکری کرنے سمیت ہر چیز کے لیے عمر کی حد ہے تو تبدیلی مذہب کے لیے بھی ایک حد مقرر کیوں نہیں کر دی جاتی؟
داود خٹک کہتے ہیں کہ حکومت اس مسئلے سے نمٹنے میں کمزوری دکھاتی ہے اور پیچھے ہٹتی ہے جبکہ وہ مراکز جو جبری تبدیلی مذہب میں ملوث ہیں، ان کے پاس باقاعدہ لاگ بکس ہیں، جہاں مذہب تبدیل کرنے والوں کا ریکارڈ رکھا جاتا ہے اور وہ یہ کام ان کے بقول بہت منظم انداز میں کر رہے ہیں۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کی سابق رکن، فرح ناز اصفہانی نے بھی جو ایوان کی انسانی حقوق کمیٹی کی رکن بھی رہی ہیں، اپنے مشاہدات بیان کیے۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے لیے مشکل حالات صرف پاکستان میں نہیں، بلکہ بھارت، بنگلہ دیش سمیت پورے جنوبی ایشیا میں ہیں۔
جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے فرح ناز اصفہانی نے نام لے کر کہا کہ پیر مٹھو نامی شخصیت جو اس طرح کے کاموں میں ملوث ہے، بجائے اس کے کہ کسی قانونی کارروائی کا سامنا کریں، وہ پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو جاتے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ کس قدر طاقتور ہیں۔
فرح ناز نے بتایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے دو مرتبہ قانون سازی کی کوشش کی۔ سندھ اسمبلی میں متفقہ طور منظور کردہ ایک بل سال 2016 میں وفاق کے مقرر کردہ گورنر نے مذہبی جماعتوں کے اعتراضات سامنے آنے کے بعد واپس پارلیمنٹ کو بھجوا دیا۔ انہوں نے بتایا کہ مذہبی رجحان کے حامل افراد لڑکیوں کی جبراً تبدیلی مذہب کو مبینہ طور پر اسلام کی فتح کے طور پر بیان کرتے ہیں اور باقاعدہ جشن منایا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ پاکستان میں آسیہ بی بی، رمشہ اور جماعت احمدیہ کے چند دیگر لوگوں کو حالیہ دنوں میں رہا کیا گیا ہے، لیکن اجتماعی طور پر اقلیتوں کو تحفظ دینے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔
فرح ناز اصفہانی نے یہ پہلو بھی اجاگر کیا کہ مسئلہ صرف اغوا یا تبدیلی مذہب کا نہیں ہے، تبدیلی مذہب کے بعد کوئی ہندو لڑکی واپس اپنے خاندان یا اپنے مذہب کی طرف نہیں جا سکتی کہ مذہبی راہنما اس پر مرتد ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں جس کی سزا موت ہے۔
ہندو امریکن فاونڈیشن میں ہیومن رائٹس کی ڈائریکٹر دیپالی کلکرنی نے کہا کہ پاکستان کی حکومت کی خاموشی پر سنجیدہ سوال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یورپی، امریکی یا سفید فام لڑکی کو اغوا کرنے کے بعد کسی اغوار کار سے بیاہ دیا جائے تو کیا بین الاقوامی برادری اس پر خاموش رہے گی؟
انہوں نے زور دیا کہ اس طرح کے واقعات کو ہیومن ٹریفکنگ خیال کیا جائے۔
دیپالی کلکرنی نے کہا کہ لڑکیوں کی عمروں کے لیے باقاعدہ دستاویزی ثبوت ہونا چاہیے۔ کسی بھی شخص کا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ وہ بالغ ہے۔ پاکستان میں ان کے بقول جبری شادی یا جبراً تبدیلی مذہب کے واقعات میں عمر کی تصدیق کسی دستاویز سے نہیں ہوتی ہے۔
مقررین نے کہا کہ پاکستان کی حکومت اور ریاست کم از کم یقینی بنائے کہ آبادی کے کسی بھی اقلیتی گروہ سے تعلق رکھنے والی بچی کی اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے نہ تو شادی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس کا مذہب تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم، مقررین نے یہ بھی بتایا کہ حکومت کی طرف سے تبدیلی مذہب کی کم سے کم عمر مقرر کرنے کی راہ میں مذہبی جماعتیں بھی رکاوٹ ہیں جو سمجھتی ہیں کہ مذہب تبدیل کرنے کے لیے عمر کی شرط غیر اسلامی ہے۔
ہڈسن انسٹی ٹیوٹ کے مذیبی آزادی کے سینٹر سے وابستہ نینا شئے نے کہا کہ جبراً تبدیلی مذہب محض جنسی استحصال نہیں، بلکہ اقلیتوں کو ختم کرنے اور اکثریت کی بالادستی والی سوسائٹی بنانے کی بھی ایک کوشش ہے۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی آزادیوں کی نگرانی کرنے والے امریکی کمیشن کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو اپنی خصوصی نگرانی والی فہرست میں رکھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اندر اہانت مذہب کا قانون بھی مذہبی اقلیتوں کے استحصال کا سبب ہے۔ یہ نہ صرف ہندو بلکہ ان کے بقول، شیعہ اور احمدی جماعت کے لوگوں پر بھی زمین تنگ کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جبری شادیوں کے پس منظر میں دستاویزات کا نہ ہونا متاثرہ لڑکی اور خاندان کو عدالت نہیں بلکہ اغواکاروں اور مذہبی رہنماوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے۔
مقررین نے پاکستان میں ہندو اقلیتوں کے حالات میں بہتری لانے اور جبراً تبدیلی مذہب اور جبرا شادی کے واقعات کو روکنے کے لیے اپنی تجاویز میں کہا کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ پاکستان کی حکومت کے لیے امداد کو مذہبی آزادیوں اور اقلیتوں کی بہتری سے مشروط کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں تبدیلی مذہب کے مراکز اور اس میں ملوث شخصیات پر سفر اور معاشی پابندیاں عائد کی جائیں۔
مقررین نے تجویز دی کہ اگرچہ پاکستان میں توہین مذہب میں ترامیم کی بات کرنے پر بھی ایک مسلمان گورنر، سلمان تاثیر اور مسیحی وفاقی وزیر شہباز بھٹی کو قتل کر دیا گیا، لیکن ضرورت ہے کہ بین الاقوامی برادری اس بارے میں بھی پاکستان پر دباو ڈالے کہ ایسی ترامیم کی جائیں، جس سے دیگر اقلیتیں محفوظ ہوں۔
ماہرین نے کہا کہ ریاست کی مشینری کو اقلیتوں کے خلاف زیادتی کے مقدمات میں زیادہ زمہ دار اور با شعور بنایا جائے۔
نینا شائے نے کہا کہ برطانیہ پاکستان کے اندر ہندو خواتین کے ساتھ پیش آنے والے معاملات کی تحقیق کر رہا ہے، امید ہے کہ ایک جامع رپورٹ آئے گی، جس کے بعد سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔ تاہم، نینا نے کہا کہ یہ معاملہ صرف پاکستان کا نہیں بلکہ بین الاقوامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کلچر میں بتدریج تبدیلی آنے کا انتظار کرنے کے بجائے قانون کی نظر سے اس کو دیکھنے اور نمٹنے کی ضرورت ہے۔
وی او اے اردو نے اس موقعے میں پیش کی گئی آرا پر پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومت کے ردعمل کے لیے نمائندہ وزرا سے رابطہ کیا ہے، لیکن اس رپورٹ کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پاکستان کی تقریباً تمام حکومتیں دعویٰ کرتی آئی ہیں کہ ملک میں اقلیتوں کے لیے صورتحال بہت سے ملکوں کی نسبت بہتر ہے، لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ اقلیتوں کی مذہبی آزادیوں کو یقینی بنانے، ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کے عہدیدار جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی بھی مذمت کرتے رہے ہیں۔