بھارت کی ایئر فورس کے جموں اسٹیشن پر 27 جون کو ڈرون حملے اور پھر اس کے بعد بھی علاقے میں ڈرون طیارے فضا میں دیکھے جانے کے متعدد واقعات کے دفاعی، سیاسی و صحافتی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ کیا ڈرون حملے بھارت کے لیے نیا سیکیورٹی چیلنج بن کر ابھر رہے ہیں؟
رپورٹس کے مطابق بھارت کے زیرِ انتظام جموں و کشمیر کی پولیس اور فوج کے حکام نے الزام لگایا ہے کہ حالیہ دنوں میں سرحد پار سے ڈرون طیاروں کی کم از کم 14 پروازوں کی نشان دہی ہوئی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون طیارے جموں، راجوری، سامبا اور کٹھوعہ اضلاع میں دیکھے گئے ہیں۔ چھ پروازیں سامبا سیکٹر میں، تین سے چار ہیرا نگر سیکٹر میں اور دو دو نوشیرہ، راجوری اور ارنیا سیکٹرز میں دیکھی گئی ہیں۔ یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ طیارے دھماکہ خیز مواد سے لیس تھے۔
ان واقعات کے بعد جموں میں تمام دفاعی ٹھکانوں پر خصوصی سیکیورٹی ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں جب کہ سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق سرحدی ضلع راجوری میں ڈرون اڑانے پر پابندی لگا دی گئی ہے، جب کہ جموں ایئر فورس اسٹیشن پر اینٹی ڈرون سسٹم، ریڈیو فریکوئنسی ڈیٹکٹر اور جیمرز بھی نصب کیے گئے ہیں۔
کیا یہ دہشت گردی کی نئی شکل ہے؟
مبصرین کے مطابق جموں ایئر فورس اسٹیشن پر ہونے والے ڈرون حملے میں گو کہ کسی کی ہلاکت نہیں ہوئی، البتہ اسے بھارت میں دہشت گردی کی ایک نئی شکل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اسی لیے حکومتی اور دفاعی حلقوں میں صورتِ حال پر اظہارِ تشویش کیا گیا ہے۔
سرینگر میں پندرہویں کور کے کمانڈر لیفٹننٹ جنرل ڈی پی پانڈے نے بھارت کے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے وہ ریاستی حمایت اور لشکر طیبہ کی شمولیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلح افواج ایسے خطروں کو روکنے اور قومی سلامتی کو لاحق خطرے سے نمٹنے کے امکانات تلاش کریں گی۔
’پاکستان کے کردار کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا‘
قبل ازیں بھارت کے نائب وزیرِ داخلہ جی کشن ریڈی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جموں ایئر فورس اسٹیشن پر ہونے والے حملے میں پاکستان کے کردار کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس واقعہ کی جانچ جاری ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت بغیر کسی ثبوت کے پاکستان کے خلاف سنگین الزام عائد کر رہا ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اپنی سر زمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
وزیرِ اعظم مودی کی صدارت میں اعلیٰ سطح کا اجلاس
جموں میں ڈرون حملے کے دو روز بعد وزیرِ اعظم نریندر مودی نے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ، وزیرِ داخلہ امت شاہ اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کیا اور اس حملے کے تناظر میں دفاعی سیکٹر کو مستقبل میں درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا۔
ذرائع کے مطابق مودی حکومت مستقبل میں ملک کو درپیش ابھرتے ہوئے نئے سیکیورٹی خطرے سے نمٹنے کے لیے جلد ہی ایک پالیسی کا اعلان کرے گی۔ بتایا جاتا ہے کہ مذکورہ اجلاس میں اس سلسلے میں تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کی ایک رپورٹ کے مطابق اس بارے میں جلد از جلد پالیسی وضع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مختلف وزارتیں اور محکمے اس نئے غیر روایتی خطرے سے نمٹنے کے سلسلے میں کام کر رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق وزارت دفاع اور تینوں مسلح افواج ممکنہ پالیسی کی تیاری اور اس کے نفاذ کے سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ رابطہ کاری میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔
ڈرون حملے کے ایک روز بعد بھارت نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں اس معاملے کو اٹھایا اور کہا کہ دفاعی اور تجارتی ٹھکانوں کے خلاف ہتھیاروں سے لیس ڈرون حملے پر عالمی برادری کو سنجیدہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ میں اسپیشل سیکریٹری (داخلی سلامتی) وی ایس کومدی نے کہا کہ آج دہشت گردی کی تشہیر، انتہاپسندی اور دہشت گرد گروپوں میں بھرتی کی خاطر اطلاعات و مواصلات کی ٹیکنالوجی جیسے کہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال، دہشت گردی کی مالی اعانت کے لیے ادائیگی کے نئے طریقوں اور کراوڈ فنڈنگ پلیٹ فارم کا غلط استعمال اور دہشت گردانہ مقاصد کے لیے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال سنگین خطرے کی شکل میں ابھرا ہے۔
کانگریس کا پالیسی سازی پر زور
اسی درمیان بھارت کی بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈرون حملے جیسے نئے خطرے سے نمٹنے کے لیے ایک معتبر پالیسی اور اسٹریٹجک اقدامات کا اعلان کرے۔
کانگریس ترجمان رندیپ سرجے والا نے کہا کہ مسلح ڈرون حملے سیکیورٹی فورسز اور حکومتی اداروں کے لیے اصل خطرہ ہیں۔ قوانین میں ترمیم اور سرکلر جاری کرنے کے بجائے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے درپیش اس نئے چیلنج کا مقابلہ کرنا وقت کی ضرورت ہے
پہلی بار ڈرون کو ہتھیار بنایا گیا
سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس علاقے میں ڈرونز پہلے سے موجود ہیں۔ لیکن یہ پہلا موقع ہے جب انہیں حملہ کرنے والے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال بھی پنجاب میں ڈرونز کے ذریعے ہتھیار گرائے گئے تھے لیکن ایسے ڈرونز اکثر پکڑے جاتے تھے۔
ان کے مطابق جموں میں جو ڈرونز استعمال کیے گئے ہیں وہ چھوٹے سائز کے ہیں۔ ان سے ایک سے دو کلو گرام تک دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا گیا اور وہ انتہائی نچلی پرواز پر تھے۔
ان کے بقول یہ پہلا موقع ہے جب دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ڈرونز کا استعمال ہوا ہے۔ ان کے مطابق جموں و کشمیر میں یہ دہشت گردی کا ایک نیا ابھار ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہمیت اس بات کی ہے کہ حکومت اس کا جواب کیسے دیتی ہے۔ پہلے بھی اس نے دہشت گردانہ سرگرمیوں کا جواب دیا ہے۔ یہ فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہے کہ وہ کیا کارروائی کرتی ہے۔
اعلیٰ ٹیکنالوجی کی ضرورت
ان کے مطابق ڈرونز کو ناکام بنانے کے لیے اعلیٰ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ وہ ریڈیو ویو پر ٹریول کرتے ہیں، وہ ریموٹ کے ذریعے کنٹرول کیے جاتے ہیں۔ اگر ہم اس فریکوئنسی کو پکڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں جس سے ڈرون بھیجا گیا ہے تو ہم اسے ناکام بنا سکتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں اس ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں نہیں معلوم کہ بھارت کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ہے۔
ان کے مطابق جس طرح بہت سی وی آئی پی کاروں میں ایریل لگے ہوتے ہیں جو آئی ای ڈی کے کسی بھی خطرے کو ناکام بنا دیتے ہیں اور وی آئی پی قافلہ وہاں سے نکل جاتا ہے۔ اسی طرح اگر کہیں بڑا عوامی اجتماع ہو رہا ہو اور وہاں ڈرون حملے کا خطرہ ہو تو وہاں اگر چھوٹے سے علاقے میں ایسے جیمر یا انٹرسیپٹر نصب کر دیں جو فریکوئنسی کو ناکام بنا سکیں تو ڈرون حملہ بھی ناکام ہو جائے گا۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جموں و کشمیر جیسے بڑے علاقے کے لیے ہائی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہو گی۔ اگر یہ ٹیکنالوجی بھارت میں نہیں ہے تو امریکہ یا اسرائیل سے جہاں سے بھی دستیاب ہو سکے اسے حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
شنکر پرساد مزید کہتے ہیں کہ ڈرون حملوں کو ناکام بنانے کے لیے طویل مدتی حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت کام کرنا پڑے گا کیوں کہ یہ ایک نیا خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت میں تو ’ڈرون دہشت گردی‘ کا نیا خطرہ ابھرا ہی ہے یورپ وغیرہ میں بھی جہاں دہشت گردانہ وارداتیں ہو رہی ہیں یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ان کے بقول آج ڈرون کھلونے کی طرح بک رہے ہیں۔ یہ دیکھنا حکومت کا کام ہے کہ دیگر شورش پسند تنظیمیں اس کا استعمال نہ کر سکیں۔ اس لیے حکومت کو فیصلہ کرنا ہے کہ ڈرون کا فروخت لائسنس کے ذریعے ہو یا کسی اور ذریعے سے۔
لیکن وہ اس اندیشے کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ لائسنس وغیرہ سے بھی بات بننے والی نہیں ہے۔ کیوں کہ دہشت گرد گروہوں کو لائسنس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ تو کہیں سے بھی ڈرون حاصل کر لیں گے اور اپنے مقاصد میں استعمال کریں گے۔
وہ اس سے اتفاق کرتے ہیں کہ بھارت کی سلامتی کے لیے ڈرون ایک نیا خطرہ بن کر ابھرا ہے اور حکومت کو جلد از جلد اس سلسلے میں کوئی مؤثر حکمتِ عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بھارت کے پاس اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی نہیں ہے
ایک اور دفاعی تجزیہ کار پروین ساہنی بھی اسے ایک بہت بڑا خطرہ تصور کرتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے خیال میں بھارت میں اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی ہے ہی نہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے پاس کوئی ڈرون پالیسی بھی نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو پہلے ڈرون کے اس خطرے کے بارے میں سمجھنا ہوگا اور پھر اسی کی مناسبت سے پالیسی وضع کرنا ہوگی۔ اس کے لیے ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے جس پر ابھی تک بھارت نے غور ہی نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ جموں کا واقعہ ایک چھوٹا واقعہ ہے۔ ایک ایسا ملک جس کے پاس اینٹی ڈرون نظام ہے وہ ایسے واقعات کو نظر انداز کر دے گا۔ لیکن یہ واقعہ بھارت کے لیے اس لیے بڑا ہے کہ اس کے پاس ایسے حملوں کو ناکام بنانے کی صلاحیت نہیں ہے۔
ایک اور دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل (ریٹائرڈ) اشونی سواچ بھی اسے ایک نیا چیلنج قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ڈرون نچلی پرواز کرتا ہے اس لیے وہ رڈار کی گرفت میں نہیں آتا۔ وہ سستا بھی ہوتا ہے اور اسے سول استعمال میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
ان کے مطابق یہ نہ صرف بھارت کی سیکیورٹی فورسز کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ ہے۔ ان کے مطابق لشکر طیبہ وغیرہ ڈرون کا استعمال گولہ بارود اور رسد وغیرہ پہنچانے کے لیے کیا کرتی تھی۔ لیکن پہلی بار ا س کا استعمال ہتھیار کے طور پر کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک نے کسی حد تک اینٹی ڈرون حکمت عملی بنائی ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ بھارت کو اپنی سیکیورٹی تیاری پر نظرِ ثانی کرنا ہوگی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے بعد تمام ایئرپورٹس کی سیکیورٹی پر نظرِ ثانی کی گئی تھی۔ اس کے باوجود جموں ایئر فورس اسٹیشن پر حملہ ہو گیا۔ لہٰذا بھارت کو آنے والے دنوں میں اینٹی ڈرون اسٹریٹجی بنانا پڑے گی۔
ڈی آر ڈی او ٹیکنالوجی
دفاعی تحقیق و ترقی کے ادارے (ڈی آر ڈی او) کے سربراہ جی ستیش ریڈی کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے جو کاؤنٹر ڈرون ٹیکنالوجی تیار کی ہے اس کی مدد سے مسلح افواج چھوٹے ڈرونز کا بہت جلد پتا لگا سکتی ہیں۔ ان کو پکڑ سکتی ہیں اور انہیں تباہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق ڈی آر ڈی او نے جنوری 2020 میں ہنڈن ایئرفورس اسٹیشن پر اور اگست 2020 اور جنوری 2021 میں نیشنل سیکیورٹی گارڈ (این ایس جی) کیمپس مانیسر میں مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کے سامنے اپنی اس ٹیکنالوجی کا مظاہرہ کیا ہے۔
بھارت کی ڈرون پالیسی
مبصرین کے مطابق بھارت میں ڈرون پالیسی پہلے سے موجود ہے۔ حکومت نے رواں سال مارچ میں اس سلسلے میں پالیسی کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق ممبئی، دہلی، چنئی، کولکاتہ، بنگلور اور حیدرآباد کے انٹرنیشنل ایئر پورٹس کے پانچ کلومیٹر کے دائرے میں اور کسی بھی سول، پرائیویٹ یا ڈیفنس ایئر پورٹ کے تین کلومیٹر کے دائرے میں ڈرون آپریٹ نہیں کیا جا سکتا۔
ضوابط کے مطابق لائن آف کنٹرول، لائن آف ایکچوول کنٹرول اور ایکچوول گراؤنڈ پوزیشن لائن سمیت بین الاقوامی سرحدوں سے 25 کلومیٹر دور تک ڈرون نہیں اڑائے جا سکتے۔
اس کے علاوہ دارالحکومت نئی دہلی کے وجے چوک یا انڈیا گیٹ اور اس کے گرد و نواح میں جہاں وزارتِ داخلہ واقع ہے اور سینٹرل سکریٹریٹ کے آس پاس ڈرون کا اڑانا ممنوع ہے۔ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے گا تو اس پر 50 ہزار روپے کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔