سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس احمد علی شیخ کی بطور ایڈہاک جج تقرر کی تجویز سامنے آنے کے بعد وکلاء برادری کی جانب سے اس پر سخت ردِ عمل سامنے آرہا ہے۔ سندھ بار کونسل، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور کراچی بار ایسوسی ایشن نے تجویز کی مذمت کی ہے۔
سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر بیرسٹر صلاح الدین احمد کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ میں گزشتہ کئی تعیناتیوں میں سینیارٹی کے اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا گیا۔ جب کہ حال ہی میں جسٹس محمد علی مظہر کی تعیناتی میں بھی سینیارٹی کے اصول پسِ پشت ڈالے گئے۔
انہوں نے سوال کیا کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو بطور مستقل جج تو تعینات نہیں کیا گیا لیکن اب انہیں سپریم کورٹ ہی میں ایڈہاک جج کے طور تعینات کیوں کیا جارہا ہے؟
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسی کسی بھی تعیناتی کو چیلنج کیا جائے گا۔بیرسٹر صلاح الدین احمد نے پارلیمانی کمیٹی برائے ججز سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ حال ہی میں سپریم جوڈیشل کمیشن کی جانب سے مستقل جج جسٹس محمد علی مظہر کی تعیناتی کو قبول نہ کرتے ہوئے اس معاملے کو واپس جوڈیشل کمیشن بھجوا دے۔
ایڈہاک جج کون ہوتا ہے؟
پاکستان کے دستور کے آرٹیکل 182 کے تحت سپریم کورٹ میں 17 مستقل ججز کے علاوہ عارضی طور پر ججز بھی تعینات کیے جاسکتے ہیں۔ جس کے لیے صدر مملکت کی اجازت درکار ہوتی ہے۔
ایڈہاک جج کے پاس وہ تمام اختیارات ہوں گے جو سپریم کورٹ کے کسی اور جج کے پاس ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ججز کے تقرر کے لیے قائم سپریم جوڈیشل کمیشن کے چار سال تک رکن رہنے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد ایڈووکیٹ کہتے ہیں عمومی طور پر ایڈہاک جج اس صورت میں مقرر کیے جاتے ہیں جب سپریم کورٹ کے پاس کیسز بڑی تعداد میں ہوں اور اس کے لیے عام طور پر سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی خدمات ہی حاصل کی جاتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ چوں کہ آئین کے تحت وہ شخص بھی سپریم کورٹ کا جج مقرر ہو سکتا ہے جس نے کم سے کم 15 سال ہائی کورٹ میں بطور وکیل کام کیا ہو، اس لیے ان کے خیال میں ایڈہاک جج کوئی وکیل بھی تعینات کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اب تک کسی بھی سینئر وکیل کو براہِ راست سپریم کورٹ کا مستقل یا عارضی جج نہیں بنایا گیا ہے۔
یاسین آزاد ایڈووکیٹ کے خیال میں وکلا برادری کو سندھ ہائی کورٹ کے جج کو غیر مستقل یعنی ایڈہاک جج بنانے پر اصولی اختلاف ہے۔
یاد رہے کہ 17 اگست کو جسٹس مشیر عالم سپریم کورٹ سے عمر کی حد پوری کرنے پر ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔ ان کی جگہ سندھ ہائی کورٹ کے پانچویں نمبر پر جج کو سپریم کوٹ کا مستقل جج تعینات کیا جارہا ہے جب کہ اسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو عارضی جج تعینات کرنے کی تجویز ہے۔
یاسین آزاد ایڈووکیٹ کے بقول "ایک مستقل چیف جسٹس کو ایڈہاک جج بنانا زیادتی کے مترادف ہے۔ یہ نہ سمجھ میں آنے والی منطق ہے۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے اپنے فیصلوں میں ایسی کئی نظیر موجود ہیں جن کی روشنی میں سینیارٹی کے اصول کو اپنانا چاہیے۔"
وکلا ایسوسی ایشنز یہ سوال پہلے بھی اٹھا چکی ہیں کہ اگر سپریم کورٹ میں جج کی تعیناتی کے لیے سینیارٹی کے اصول پر عمل نہیں کرنا تو آخر وہ کیا معیار ہے جس کی بنا پر یہ تقرر کیا جاتا ہے؟
یاسین آزاد کے مطابق اگر سپریم کورٹ کے خیال میں اس میں قابلیت ہی کا اصول اپنانا ہے تو پھر بھی یہ یہاں لاگو نہیں کیا گیا۔ کیوں کہ جسٹس محمد علی مظہر کو مستقل جج جب کہ جسٹس احمد علی شیخ کو ایڈہاک جج بنا کر سپریم کورٹ میں ہی تعینات کرنے کی تجویز سامنے آئی ہے۔
'ایک جج کو دوسرے پر کس بنا پر ترجیح دی گئی'
انہوں نے کہا کہ اگر سینیارٹی کے ساتھ قابلیت کو بھی سپریم کورٹ میں تعیناتی کا معیار مقرر کیا جارہا ہے تو اس کے لیے بھی کوئی پیمانہ طے کرنے کی ضرورت ہے کہ کس کس چیز پر کس قدر فوقیت دی جائے گی۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ بار کے صدر بیرسٹر صلاح الدین ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ چند سال قبل ایک فیصلے میں پولیس اور دیگر اداروں میں تعیناتی کے لیے آؤٹ آف ٹرن پروموشنز کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیتے ہوئے سینیارٹی کے اصولوں کو فالو کرنے کا حکم دیا تھا۔ تو کیا وجہ ہے کہ اس اصول پر عدلیہ ہی میں عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ جج کی تعیناتی سے متعلق کوئی اور طریقہ کار بھی وضع نہ کیا جائے تو کیسے معلوم ہوگا کہ کسی جج کو کس بنا پر دوسرے پر فوقیت دی گئی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جسٹس طارق پرویز، جسٹس خلجی عارف حسین، جسٹس حامد علی مرزا، جسٹس خلیل الرحمان رمدے، جسٹس غلام ربّانی سمیت کئی ججز ایڈہاک جج تعینات رہ چکے ہیں۔
جسٹس سرمد جلال عثمانی کو ستمبر 2008 میں سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا گیا تھا۔ مدت ختم ہونے کے بعد انہیں ایک بار سندھ ہائی کورٹ میں بطور چیف جسٹس تعینات کیا گیا۔
ادھر سندھ بار کونسل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کسی چیف جسٹس کو اس کی مرضی کے برخلاف ایڈہاک جج مقرر کیا جاتا ہے تو یہ ایک انتہائی بری آئینی روایت قائم کرنے کے مترادف ہوگا اور اس عمل سے ہائی کورٹس کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو کر رہ جائے گی۔
سندھ بار کونسل کے مطابق سینیارٹی کے اصول کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیر ضروری آئینی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
لیکن بعض وکلاء کا یہ بھی کہنا ہے کہ آئین کے تحت ملک میں ججز کی تعیناتی کا مکمل اختیار صرف جوڈیشل کمیشن کے پاس ہے اور آئین کے آرٹیکل 176 میں صرف یہی درج ہے کہ سپریم کورٹ کے جج بننے کے لیے امیدوار پانچ سال ہائی کورٹ کا جج رہا ہو یا کم از کم 15 سال ہائی کورٹ میں وکالت کی ہو۔
بعض وکلا کہتے ہیں جج کی تعیناتی کا صرف وہی اصول ہے جو آئین میں دیا گیا ہے اور یہ استحقاق صرف سپریم جوڈیشل کونسل کا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے کس کو تعینات کرتا ہے۔
سینیارٹی کے اصول کے بجائے صرف قابلیت کو بنیاد بنا کر ججز کی تعیناتی کے عمل کی وفاقی وزیر فواد چوہدری نے بھی کھل کر حمایت کی ہے۔