ترکی نے ایران کے ساتھ اپنی سرحد پر مزید فوج تعینات کردی ہے تا کہ طالبان کے ملک پر کنٹرول سے پیدا ہونے والی صورت حال سے فرار ہو کر آنے والے افغان مہاجرین کی ممکنہ نئی لہر کو روکا جا سکے۔
ترکی کو خدشہ لاحق ہےکہ افغانستان سےبڑی تعداد میں افغان باشندوں کی ممکنہ سدحد عبور کرنے کی کوشش سے اسے پھر سے مہاجرین کے کسی نئے بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے، ایسو سی ایٹڈ پریس نے بدھ کو ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ترکی پہلے ہی ایران کی سرحد پار کر کے وقفے وقفے سے آنے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافے سے نمٹ رہا ہے۔
اے پی نے ترکی اور ایران کے بارڈر پر افغان مہاجرین کے ایک گروپ سے جب بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق افغانستان کی فوج سے ہے اور وہ طالبان کی تیز رفتار پیش قدمی کے باعث ملک چھوڑ کر وہاں پہنچے ہیں۔
گروپ میں شامل فروز صدیقی نامی ایک شخص نے بتایا کہ وہ ضروت کے تحت اپنے ملک سے بھاگ کر بارڈر تک پہنچے ہیں اور امید ہے کہ ترکی کی حکومت ان کو قبول کرلے گی۔
فیروز نے بتایا کہ کس طرح گروپ میں شامل افراد پہاڑوں کی چوٹیوں سے ہوتے ہوئےبھوکے اور پیاسے وہاں تک پہنچے ہیں۔
ایک اور شخص نثار احمد نے بتایا کہ رہزنوں نے ان سے پیسے اور موبائل فون چھین لیے۔
اس سے قبل ترک کی صدر طیب اردوان نے افغانستان سے بڑی تعداد میں ماجرین کے ملک آنے کے متعلق تنقید کر مسترد کر دیا تھا لیکن اس ہفتے انہوں نے اعتراف کیا کہ افغانستان سے مہاجرین کی لہر نے ترکی کا رخ کیا ہے اور یہ کہ ترکی پاکستان سے مل کر افغانستان میں امن ا ور استحکام لانے کی کوششیں کرے گا۔
خیال رہے کہ اس وقت ترکی میں چالیس لاکھ مہاجرین ہیں جن میں زیادہ تر شام کی خانہ جنگی سے بھاگ کر پناہ لینے کے لیے ترکی آئے تھے۔ ترک عوام پہلے ہی سے کرونا کی عالمی وبا کے باعث روزگار ختم ہونے سے پریشان ہیں اور ان حالات میں وہ مہاجرین کی آمد کو پسند نہیں کر رہے ہیں۔
ادھر افغانستان کا وسطی ایشیائی ہمسایہ ملک ازبکستان بھی افغانستان سے مہاجرین کے آنے والے سیلاب سے پریشان ہے، کیونکہ ہزاروں افغان باشندے ملک چھوڑ کر ازبکستان جانا چاہتے ہیں۔
بعض افغان شہریوں نے اے پی کو بتایا کہ حالیہ مہینوں میں ازبکستان نے کرونا کی عالمی وبا کا حوالہ دیتے ہوئے افغان لوگوں کی ویزا کی درخواستیں مسترد کردی ہیں۔
یاد رہے کہ ازبکستان نے مہاجرین کے کنوینشن کی توثیق نہیں کی اور 1990 کی دہائی سے وہ ایسا کرنے سے انکار کرتا چلا آ رہا ئے۔ اس کنوینشن پر دستخط کرنے والے ممالک کے لیے لازم ہے کہ پناہ کی درخواست دینے والے افراد کو تحفط فراہم کریں۔