پاکستان سے براستہ ایران، ترکی تک مال بردار ٹرین کی بحالی کا منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ اب اس ٹرین کے رواں ہفتے جمعرات کے بجائے مارچ کے آخر میں چلنے کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔
پاکستان، ایران اور ترکی نے حال ہی میں اسلام آباد سے تہران اور پھر استنبول تک مال بردار ٹرین سروس کی بحالی کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سروس پہلی مرتبہ 2009 میں شروع کی گئی تھی۔ تاہم گزشتہ نو برس سے اس روٹ پر کوئی بھی ٹرین نہیں چلی۔
اس ٹرین سروس کا باقاعدہ آغاز جمعرات سے ہونا تھا۔ تاہم پاکستان ریلوے کے مطابق اسے تین ہفتوں کے لیے ملتوی کر دیا گیا تھا۔
سرکاری سطح پر اس ٹرین سروس کے بارے میں ابھی تک کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انقرہ میں پاکستانی سفارت خانے کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ابھی تک سفارت خانے کے پاس اس ضمن میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔ اگرچہ یہ سروس بہت اچھی ہے لیکن اس میں چند بنیادی مسائل ہیں۔
بعض ماہرین کے مطابق پاکستان میں ٹرین سروس کے لیے استعمال ہونے والا ٹریک ترکی اور ایران سے مختلف ہے۔
اس کے علاوہ ایران اور ترکی میں کسٹم کے بھی بہت زیادہ مسائل ہیں جس کی وجہ سے ٹرین ڈھائی سے تین ہفتے میں ایک جانب کا فاصلہ طے کرتی ہے جو تقریباً 6500 کلو میٹر ہے۔
یہ ممالک کیا درآمد اور کیا برآمد کر سکتے ہیں؟
پاکستانی سفارت خانے کے اہلکار نے مزید بتایا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ اس مال بردار ٹرین کے ذریعے یہ تینوں ممالک کون کون سی اشیا درآمد اور برآمد کریں گے۔ کیوں کہ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو اس مال بردار ٹرین کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ترکی میں پاکستانی چاول اور قالین کے ساتھ ساتھ فیبرکس (کپاس) کی طلب ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی مارکیٹ میں ترکی کی بنی ہوئی الیکٹرانک مصنوعات اور فروٹ سے بھی بہت زیادہ فائدے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اسی سروس کے ذریعے 2010 میں سیلاب زدگان کے لیے عارضی بنیادوں پر رہائش کے لیے سامان کی فراہمی ممکن بنائی گئی تھی۔
پاکستان میں ریل سروس کا آغاز انگریز دورِ حکومت میں 1861 میں ہوا۔ محقق اور مصنف، ڈاکٹر عرفان احمد بیگ نے اس حوالے سے 2011 میں ایک کتاب 'ڈیڑھ صدی کی ریل' لکھی۔
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی کامیاب منصوبہ ہے۔ لیکن بدقسمی سے تینوں حکومتوں نے اسے سنجیدہ نہیں لیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کا باقاعدہ سنگِ بنیاد پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت میں 14 اگست 2009 میں رکھا گیا جو صرف نمائشی ہی ثابت ہوا۔ جس کے بعد سے یہ منصوبہ التوا کا شکار ہے۔
اُن کے بقول اب جب کہ تینوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ معاشی طور پر شراکت بڑھانا چاہتے ہیں تو پھر سے اسی منصوبے کی بحالی پر بات ہو رہی ہے۔
تاجربرادری کا خیر مقدم
اختر کاکڑ کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر ہیں۔ وہ ڈاکٹر عرفان احمد بیگ سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے ملک کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہو جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کاروبار کو بڑھانے میں سب سے نمایاں کردار ریل ہی ادا کرتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اس کے ذریعے پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا اور خاطر خوا زرِمبادلہ بھی حاصل ہو گا۔
اختر کاکڑ کا مزید کہنا تھا کہ ملکی ترقی میں تجارت کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس روٹ کے ذریعے تینوں ممالک کے مابین تجارت کو فروغ ملے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان کی جانب سے کینو، آم، چاول اور کپاس کی بیرون ممالک میں بہت زیادہ طلب ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک ہزار اشیا کی تجارت ہوتی ہے۔ اور یہ راستہ کھلنے سے پاکستان کو نئی مارکیٹ مل جائے گی جس کا ہدف نہ صرف ترکی بلکہ یورپ بھی ہو سکتا ہے۔
بلوچستان میں اکثر بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سرکاری اہلکار، املاک اور بعض اوقات ٹرینوں کو بھی نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اس لیے یہ خدشہ ہے کہ اس ٹرین سروس کو بھی سیکیورٹی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تاہم اختر کاکڑ کا خیال ہے کہ پاک–ایران سرحد پر مضبوط باڑ کی تعمیر جاری ہے۔ جس کے بعد سرحد پار نہ صرف دہشت گردی کی کارروائیوں میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اسمگلنگ میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
بھارت اور دیگر ممالک کی منصوبے میں دلچسپی
ڈاکٹر عرفان احمد بیگ کا کہنا ہے کہ جب 2009 میں اس منصوبے کا آغاز ہوا تو بھارت اور بنگلہ دیش نے فوری طور پر اس منصوبے میں اپنی شرکت کا عندیہ دیا۔ کیوں کہ بھارت کو بھی اس کے ذریعے اپنی مصنوعات وسطی ایشیائی منڈیوں تک پہنچانے کا امکان نظر آ رہا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان سے ٹرین کوئٹہ سے تفتان، مشہد، تہران اور ترکی کی سرحد تک جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت پاکستان کی حدود تفتان کے علاقے میں ختم ہو جاتی ہے لیکن 1970 تک میرجاوا اور حتیٰ کہ زاہدان ریلوے اسٹیشن پر بھی پاکستان ریلوے کا عملہ ڈیوٹی سرانجام دیتا تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایران نے اپنی سرحد تفتان تک عالمی معیار کی پٹری بچھا دی ہے لیکن پاکستانی حدود میں ٹریک خاصا پرانا اور خستہ ہے۔ اور شاید ہی ٹرین 80 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زیادہ چلے۔
اُن کے بقول اسی لیے پاکستانی ٹرین سارا سفر طے نہیں کرتی بلکہ ایران میں پاکستان کی جانب سے بھیجا جانے والا سامان دوسری ٹرین میں منتقل ہو جاتا ہے۔
ریل کی اہمیت کے بارے میں ڈاکٹر عرفان احمد کا کہنا تھا کہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران سامان لے جانے کا سب سے اہم ذریعہ ریل ہی تھی۔
اُن کے بقول اس کے بعد بڑی بڑی گاڑیاں اور کنٹینر سامنے آئے۔ تاہم بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کے باعث اب دنیا کی نظریں دوبارہ ریل سروس کی جانب ہیں اور اس لحاظ سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے بجلی سے چلنے والی ٹرینیں شروع کر دی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میدانی علاقے میں ایک کارگو ٹرین کے ساتھ 70 سے زائد بوگیاں منسلک کی جا سکتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر میں سیکیورٹی بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے لہذٰا اب ریل کے ذریعے سامان کی نقل و حمل کو اہمیت دی جا رہی ہے۔