اب سے کچھ دنوں پہلے ہم نے آپ کو زیبولون سمنٹوف کی کہانی سنائی تھی۔ خود کو "افغانستان کا آخری یہودی" کہلانے والے سمنٹوف کابل کی آخری یہودی عبادت گاہ کے واحد مکین تھے۔ تاہم، اب یہ سامنے آیا ہے کہ زیبولون افغانستان میں رہ جانے والے واحد یہودی نہیں تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق سمنٹوف کی اپنی کزن، کابل ہی میں پیدا ہونے والی طووا مورادی اپنے خاندان کے ساتھ ابتدا سے یہیں مقیم تھیں اور انہوں نے طالبان کے قبضے کے بعد گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا ہے۔
خود کو افغانستان کے آخری یہودی کے طور پر متعارف کرانے والے زیبولون سمنٹوف صحافیوں سے انٹرویو کے لئے خطیر رقم طلب کیا کرتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے سے اپنی اہلیہ کی جانب سے بار بار طلب کرنے کے باوجود طلاق دینے سے انکاری تھے، اسرائیلی ویزہ حاصل کرنے کے لئے گزشتہ دنوں انہوں نے بڑے تردد کے بعد بالآخر طلاق نامہ پر دستخط کر ہی دیے۔
اسرائیلی اخبار ہارٹز کے مطابق سمنٹوف نے جان کے خطرے کے پیش نظر خود کو افغانستان سے نکالنے میں مدد کرنے والے ریسکیو ورکرز کا ممنون ہونے کی بجائے ان سے بھی اس کام کے لئے معاوضہ طلب کر لیا تھا۔
اب سامنے آیا ہے کہ ان کی دور کی ایک رشتہ دار طووا مورادی، سمنٹوف کے ملک سے نکلنے کے ایک مہینے بعد تک افغانستان میں ہی رہتی رہیں ہیں۔ جان کے خطرے کے پیش نظر طووا، ان کے بچوں اور دو درجن کے قریب پوتے پوتیوں نے گزشتہ ہفتوں کے دوران اسرائیلی امدادی گروپ اور کارکنوں کی مدد سے آخر کار البانیہ کے لئے رخت سفر باندھا۔
البانیہ کے شہر گولم میں سمندر کنارے کئی ریزورٹس میں قریباً دو ہزار افغان شہریوں کو عارضی رہائش دی گئی ہے۔ انہیں میں سے ایک کوارٹر میں طووا بھی رہ رہی ہیں۔
یہاں اے پی سے بات کرتے ہوئے طووا کا کہنا تھا کہ "مجھے اپنے ملک سے بہت پیار تھا، بہت زیادہ۔ مگر اپنے بچوں کی جان بچانے کے لئے مجھے وہاں سے نکلنا پڑا".
عمر میں سمنٹوف سے چودہ سال بڑی طووا مورادی نے کابل میں ایک یہودی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ طووا اپنے نو بھائی بہنوں کے ساتھ افغانستان میں ہی پلی بڑھیں۔ اس وقت وہ تراسی برس کی ہیں۔
سولہ سال کی عمر میں طووا نے گھر سے فرار ہو کر ایک مسلمان شخص سے شادی کر لی تھی مگر اپنا مذہب کبھی تبدیل نہیں کیا۔ اس دوران طووا یہودی روایات پر عمل کرتی رہیں اور ان کے پڑوسی بھی انہیں بطور یہودی ہی جانتے تھے۔
طووا کے والدین اور دیگر بھائی بہن ساٹھ اور اسی کے دہائی میں ملک چھوڑ گئے تھے جب کہ طووا کے چار بچے طالبان کے پہلے دور حکومت میں کینیڈا ہجرت کر گئے تھے۔
طووا کے مطابق غیر مذہب میں شادی کرنے کے باوجود وہ اپنے کئی رشہ داروں سے رابطے میں رہیں۔
طووا کے والدین یروشلم میں دفن ہیں جب کہ ان کے کئی بھائی بہن اپنے خاندانوں کے ساتھ اسرائیل میں بسے ہوئے ہیں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ طووا کی اپنی کچھ بہنوں سے گزشتہ ساٹھ سال میں کوئی بات چیت نہیں ہو پائی تھی۔ ابھی پچھلے ہی ہفتے ان کا اپنے خاندان سے وڈیو کال پر رابطہ ہوا ہے اور انہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد نہ صرف اپنی بہنوں کو دیکھا بلکہ اپنے بھانجے بھانجیوں سے بھی بات چیت کی۔
اپنے رشتہ داروں سے اس وڈیو ملاقات نے طووا کی زندگی میں اک نئی روح پھونک دی ہے اور وہ بہت خوش ہیں۔ ان کے رشتہ داروں کے بقول یہ ایسا ہے جیسے طووا مر کر پھر سے جی اٹھی ہوں۔
طووا اس وقت اپنے چھ گھر والوں کے ساتھ البنایہ میں ہیں جب کہ ان کے گھر کے باقی 25 افراد اس وقت ابو ظہبی میں عارضی طور پر مقیم ہیں۔
طووا کے کینیڈا میں مقیم بچوں اور یہودی رضاکاروں کی کوشش ہے کہ طووا اور ان کے پورے خاندان کو کسی طرح کینیڈا میں ہی مستقل سکونت دلائی جائے۔ تاہم، طووا اسرائیل بھی جانا چاہتی ہیں تاکہ اپنے بھائی بہنوں سے مل سکیں اور اپنے والدین کی قبر پر جا کر دعا کر سکیں۔