امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا نے افغانستان میں رہنے والے کئی افراد کو اس تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے کہ طالبان واپس اقتدار میں آ سکتے ہیں۔ اور یہ خدشات ملک میں موجود آخری یہودی کو بھی افغانستان کو جلد از جلد خیرباد کہہ دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔
62 سالہ یہودی زیبولان سائمنٹوو کابل میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کی آمد سے پہلے افغانستان چھوڑ دیں گے۔
’’ خدا نے چاہا تو، میں نہیں کہہ سکتا کہ سات ماہ لگیں گے یا آٹھ ماہ، لیکن میں یقیناً اس وقت تک یہاں سے چلا جاؤں گا جب طالبان واپس آئیں گے‘‘۔
طالبان نے حالیہ ہفتوں میں افغانستان کی حکومت کے کنٹرول والے علاقوں میں اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ یہ شدت ایسے وقت میں آ رہی ہے جب امریکہ اور نیٹو اتحادی افواج نے افغانستان سے اپنی باقی ماندہ افواج نکالنے کا کام شروع کر دیا ہے۔
افغانستان میں موجود واحد یہودی سائمنٹوو کئی عشروں سے کابل میں واقع یہودی عبادت گاہ (سینیگاگ) کا خیال رکھ رہے ہیں۔ اور ان کی رہائش بھی اسی سینیگاگ کے احاطے میں ہے۔
ان کو امید ہے کہ جب وہ واپس اسرائیل چلے جائیں گے تو حکومت ان کے متبادل کا بندوبست کرے گی۔ سائمنٹوو نے بتایا ہے کہ ان کی اہلیہ اور ان کی دو بیٹیاں افغانستان کے اندر خانہ جنگی کی وجہ سے 1990ء کی دہائی میں اسرائیل چلی گئی تھیں۔ اس دوران وہ صرف ایک بار 1998 میں اسرائیل گئے تھے اور دو ماہ وہاں قیام کیا تھا۔
’’ وہ جانتی ہیں کہ میں واپس آنے کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ میں اپنا پاسپورٹ حاصل کر رہا ہوں۔ ان کو ایک محافظ مل جائے گا۔ دیکھتے ہیں، کیا ہوتا ہے‘‘
افغانستان میں کبھی یہودی اچھی خاصی تعداد میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ ہزاروں افغان یہودی اب اسرائیل اور مغربی ممالک میں آباد ہو چکے ہیں۔
افغان یہودیوں کی افغانستان سے ہجرت 1950 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی جب اسرائیل معرض وجود میں آیا تھا۔ زیادہ تر افغان یہودیوں نے 1979 میں سوویت یونین کے حملے کے دنوں میں اس ملک کو خیرباد کہہ دیا تھا۔
تحمل و برداشت والا افغان معاشرہ
ہمایوں احمد، افغان صوبہ ہرات میں قدیم اشیا کو برقرار رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 1978 میں، جنگ کے آغاز سے قبل، ہرات شہر میں ایک ہزار سے زیادہ یہودی مقیم تھے اور دیگر کمیونٹیز کے ساتھ مل کر رہا کرتے تھے۔
’’ وہ دوسروں کے ساتھ مل کر، پر امن ماحول میں رہتے تھے۔ یہ شہر کبھی سینیگاگ (یہودی عبادت گاہوں) کا گھر ہوا کرتا تھا‘
ہمایوں احمدی بتاتے ہیں کہ بعض افغان یہودی جو ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے، ہرات کے اس پرانے شہر میں اپنے پیاروں کی قبروں پر آ چکے ہیں۔
ان کے بقول، سال 2005 میں ایک یہودی اسحاق لیوی کی موت کے بعد سے سائمنٹوو اس وقت افغانستان میں رہ جانے والے واحد یہودی ہیں۔
سینیگاگ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ سائمنٹوو ایک بے روزگار ہیں۔ اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ چند سال پہلے تک ایک ریسٹورنٹ چلاتے تھے۔ ان کے بقول ان کے خاندان کا کبھی قالینوں کا کاروبار ہوا کرتا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں سفر کرتے تھے۔
تشدد کا خطرہ
لال گل، افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیم کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے بھی وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر طالبان اور افغان حکومت کے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو اقلیتیوں کے لیے حالات مشکل ہو سکتے ہیں۔
کیا طالبان کے رویے تبدیل ہوئے ہیں؟
جون 2020 میں ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ طالبان کے جو رویے 1990 میں تھے، ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے گو کہ عسکریت پسندوں کی قیادت دعویٰ کرتی ہے کہ وہ اپنے بعض انتہاپسندانہ نظریات سے دور ہوئے ہیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان نے انسانی حقوق کی ’ ایک سسٹم کے تحت خلاف ورزیاں‘‘ کی ہیں۔
اپریل میں بین الاقوامی سطح پر مذہبی آزادیوں کے امریکی کمشن نے بھی اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان نے اپنے کنٹرول والے علاقوں میں مذہبی اقلیتوں کو سخت گیر اسلامی قوانین کے تحت سزائیں دینے کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
امریکی کمیشن نے امریکہ کے محکمہ خارجہ کو سفارش کی ہے کہ طالبان کے لیے مخصوص خطرات کے حامل عنصر کی حیثیت برقرار رکھیں۔