عالمی ادارہٴ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں حالیہ برسوں میں تمباکو نوشی کرنے والوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
ڈبلیو ایچ او نے دنیا بھر کے ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مزید اقدامات کریں جس سے تمباکو نوشی کی ہلاکت خیز لت کا خاتمہ ہو سکے۔
ڈبلیو ایچ او کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2020 میں ایک ارب 30 کروڑ افراد تمباکو نوشی کے عادی تھے جب کہ اس سے دو برس قبل تک یہ تعداد ایک ارب 32 کروڑ تھی۔
عالمی ادارہٴ صحت نے امکان ظاہر کیا ہے کہ آئندہ چار برسوں یعنی 2025 تک یہ تعداد مزید کم ہو کر ایک ارب 27 کروڑ ہو سکتی ہے۔ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھر گزشتہ سات برس میں آبادی میں تو اضافہ ہوا ہے البتہ تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد میں پانچ کروڑ تک کمی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق دو دہائی قبل سال 2000 میں دنیا بھر میں 15 برس سے زائد عمر کی ایک تہائی آبادی تمباکو سے بنی اشیا کا استعمال کر رہی تھی جب کہ یہ تعداد آئندہ چار برس میں کم ہو کر عالمی آبادی کے پانچویں حصے کے برابر ہو گی۔
عالمی ادارہٴ صحت کے سربراہ ٹیڈروس گیبریاسس کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی حوصلہ افزا ہے کہ ہر برس تمباکو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں کمی آ رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی ایک طویل راستہ طے کرنا ابھی باقی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ تمباکو سے بنی اشیا فروخت کرنے والی کمپنیاں اپنے فائدے کے ہر وہ طریقہ استعمال کریں گی جس سے اس ہلاکت خیز چیز کے ذریعے ان کا منافع بڑھے۔
عالمی ادارہٴ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر برس لگ بھگ 80 لاکھ افراد براہِ راست تمباکو نوشی یا اس کے دیگر طریقوں سے استعمال سے ہلاک ہوتے ہیں۔ جب کہ 12 لاکھ افراد ایسے بھی موت کا شکار ہوتے ہیں جو تمباکو استعمال نہیں کرتے لیکن اس کے مضر اثرات کا نشانہ بنتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا کے 60 ممالک ایسے ہیں جہاں 2010 سے 2025 کے درمیان تمباکو کے استعمال میں 30 فی صد کمی آ جائے گی جو کہ ایک بالکل درست سمت میں سفر ہو گا۔
دو برس قبل جب عالمی ادارہٴ صحت نے اپنی رپورٹ جاری کی تھی تو اس میں واضح کیا تھا کہ دنیا بھر میں صرف 32 ممالک ایسے ہیں جو تمباکو کے استعمال کر کم کرنے کے لیے درست سمت میں گامزن ہیں۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق ڈبلیو ایچ او کے ہیلتھ پروموشن ڈپارٹمنٹ کے سربراہ روڈیگر کریک کا کہنا ہے کہ کئی ممالک میں انتہائی مثبت پیش رفت ہو رہی ہے۔ لیکن اس حوالے سے کامیابی پائیدار نہیں ہے۔
عالمی ادارہٴ صحت کی رپورٹ میں تمام ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں جس سے تمباکو کے استعمال کی حوصلہ شکنی ہو۔ ان اقدامات میں تمباکو کے استعمال سے متعلق اشتہارات پر پابندی، سگریٹ کے ڈبوں پر اس کے مضرِ صحت ہونے کا انتباہ، تمباکو سے بنی اشیا پر ٹیکسوں میں اضافہ اور اس کا استعمال چھوڑنے والوں کی معاونت شامل ہے۔
ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں الیکٹرانک سگریٹ کے استعمال سے متعلق اعداد و شمار شامل نہیں ہیں۔ البتہ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مردوں کی 36.7 فی صد اور خواتین کی 7.8 فی صد تعداد تمباکو سے بنی اشیا استعمال کرتی ہیں۔
سب سے زیادہ تفکر کا پہلو یہ ہے کہ دنیا بھر میں 13 سے 15 برس کے تین کروڑ 80 لاکھ بچے تمباکو کے استعمال کی لت میں مبتلا ہیں۔
رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکے زیادہ تمباکو کے استعمال کی لت میں مبتلا ہیں۔
رپورٹ سے واضح ہوتا ہے کہ یورپ دنیا کا وہ خطہ ہے جہاں باقی دنیا کے مقابلے میں خواتین زیادہ تمباکو سے بنی اشیا استعمال کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ دنیا جہاں ترقی کر کے جدیدیت کی طرف مائل ہے وہیں معاشرے میں استعمال ہونے والی بہت سی معمولی یا عام چیزوں کی قسمت' بھی بدل گئی ہے۔ پہلے ایک عام چیز 'حقہ' ہوا کرتا تھا، وہ آج بدل کر 'شیشہ' ہوگیا ہے۔
بدلتے وقت کو 'حقے' کے 'شیشے' میں دیکھیں تو اس کے پینے کے انداز، تمباکو کی قسمیں، شکل و صورت، اس کے پینے والے اور قیمت سب کچھ بدل گیا ہے۔ البتہ اس کے نقصانات اور انسانی صحت پر اس کے برے اثرات اب بھی وہی ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں اس کے استعمال میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جب کہ ماہرینِ صحت اس کو انتہائی خطرناک قرار دیتے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں ویپنگ (الیکٹرانک سگریٹ) کے استعمال میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سگریٹ سلگانے کی بجائے ایک الیکٹرانک آلے کی مدد سے نکوٹین کے بخارات کے کش لگانے کو، ویپنگ کہا جاتا ہے۔
جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھارت اور بنگلہ دیش میں الیکٹرانک سگریٹ پر دو برس قبل پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں حالیہ برسوں میں ویپنگ اور شیشے کے پارلر کھلے ہیں۔ بعض شہروں میں ان کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اب بھی اس کی فروخت جاری ہے۔
اس رپورٹ میں بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔