رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: پولیس کی کارروائی میں ہلاک دو شہریوں کی میتیں لواحقین کے حوالے


پولیس کی حالیہ کارروائی اور اس میں شہریوں کی ہلاکت کے خلاف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔
پولیس کی حالیہ کارروائی اور اس میں شہریوں کی ہلاکت کے خلاف بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکیورٹی فورسز سے مبینہ جھڑپ کے دوران پیر کو ہلاک ہونے والے دو مقامی شہریوں کی میتیں ورثا کے حوالے کر دی گئی ہیں۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ پیر کی شب سری نگر کے حیدر پورہ علاقے میں واقع ایک تجارتی عمارت میں مسلح تصادم میں دو عسکریت پسند، اُن کا سہولت کار اور ایک عام شہری مارے گئے تھے۔

بعدازاں پولیس نے مارے جانے والے افراد کی میتوں کی تدفین منگل کو ہی دور دراز علاقے ہندوارہ میں کر دی تھی۔

ہلاک افراد میں محمد الطاف بٹ، ڈاکٹر مدثر گُل اور عامر احمد شامل ہیں جن کی ہلاکت کے خلاف عوامی سطح پر غم و غصے میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے تناؤ کے پیشِ نظر شورش زدہ علاقے میں سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔

لواحقین نے پولیس کے دعوے کی تردید کی کہ ان کا تعلق کسی عکسریت پسند گروہ سے تھا۔ لواحقین، مقامی افراد اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے شدید احتجاج کے بعد پولیس نے قبر کشائی کے بعد جمعرات کی شب ڈاکٹر مدثر اور الطاف بٹ کی میتیں ورثا کے حوالے کر دیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق میتوں کی دوبارہ تدفین کے موقع پر سری نگر کے بعض حساس علاقوں میں کرفیو جیسی حفاظتی پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں جب کہ دونوں خاندانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تدفین مختصر وقت میں انجام دیں اور اس میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد بھی محدود رکھیں۔

مقتولین کے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں۔
مقتولین کے لواحقین احتجاج کر رہے ہیں۔

اب سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت پر اس واقعے میں مارے جانے والے 23 سالہ نوجوان عامر احمد ماگرے کی لاش کو بھی قبر کشائی کے بعد لواحقین کے حوالے کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ عامر ایک عسکریت پسند تھا لیکن اس کے والد کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا ایک مزدور تھا۔

بھارت نواز علاقائی سیاسی جماعتوں اور بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) نے بھارت کے صدر رام ناتھ کووند کو ایک خط لکھ کر واقعے میں ملوث پولیس افسران اور اہلکاروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

اس سے قبل کشمیر کی انتظامیہ کے سربراہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہلاک ہونے والے افراد کے معاملے کی تحقیقات ایک ایڈیشنل ضلعی مجسٹریٹ کے ذریعے کرانے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے جمعرات کو کہا تھا کہ حکومت واقعے کی تحقیقاتی رپورٹ موصول ہونے کے بعد اس سلسلے میں مناسب کارروائی کرے گی۔ البتہ انہوں ںے یہ نہیں بتایا کہ یہ تحقیقات کب تک مکمل ہو جائیں گی۔

ادھر استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد کل جماعتی حریت کانفرنس کے ایک دھڑے نے حیدر پورہ سری نگر میں جمعے کو ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

مجسٹریل تحقیقات کرانے کا خیر مقدم

انسانی حقوق کارکن اور ہیومن رائٹس واچ میں جنوبی ایشین ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے لندن سے وی او اے سے بات کرتے ہوئے واقعے کی مجسٹریل تحقیقات کرانے کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے اور انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچایا جانا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا ماضی میں بھی اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بڑی تعداد میں بے گناہ شہریوں کی جانیں گئیں لیکن تحقیقات میں سیکیورٹی اہلکاروں کے نام آنے کے باوجود انہیں حاصل استثنیٰ کی وجہ سے وہ سزا سے بچ گئے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کی مداخلت کے بعد جمعرات کی شام قبر کشائی کر کے الطاف بٹ اور مدثر گل کی میتیں نکالی گئیں جنہیں دوبارہ تجہیز وتکفین کے لیے متعلقہ خاندانوں کے سپرد کیا جائے گا۔

'میں اپنے شوہر کو جانتی تھی، وہ سہولت کار نہیں'

مدثر گُل کی اہلیہ حمیرا نے بدھ کو صحافیوں کو بتایا کہ دونوں کی شادی چار سال قبل ہوئی تھی اور ان کی ایک بیٹی ہے۔

انہوں نے کہا "تم ایک بیٹی کے باپ کو نہیں لوٹا سکتے تو کم سے کم اُس کی لاش لوٹا دو تاکہ وہ اُس کا آخری دیدار کر سکے۔"

حمیرا نے مزید کہا "میں ڈاکٹر مدثر کی بیوی ہوں اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ وہ (عسکریت پسندوں کا) سہولت کار نہیں تھا۔ اگر تھا تو مجھے اس کا ثبوت فراہم کردو اور پھر مجھے اور میری بیٹی کو بھی گولی مار دو۔ کوئی تم سے یہ نہیں کہے گا کہ تم نے ایسا کیوں کیا۔"

الطاف بٹ کے اہلِ خانہ نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبد اللہ، محبوبہ مفتی اور غلام نبی آزاد اور دیگر سیاست دانوں سے کہا کہ وہ ٹوئٹ اور اخباری بیانات جاری کرنے کے بجائے سوگواروں کے ساتھ دھرنے پر بیٹھ جائیں اور ان کے ہلاک شدگان کی میتیں لوٹانے کے مطالبے کی عملاً حمایت کریں۔

محبوبہ مفتی نے جو حزب ِ اخلاف کی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر ہیں، کہا کہ وہ جموں میں تھیں اور جب وہ سری نگر پہنچیں تو پولیس نے انہیں احتجاجی دھرنے میں شامل ہونے سے روکا اور پھر شہر کے گپکار روڑ پر واقع ان کے گھر میں نظر بند کردیا تاکہ وہ متاثرہ خاندانوں سے تعزیت نہ کر سکیں۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG