بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مرکزی شہر سرینگر میں پیر اور منگل کی درمیانی شب ایک جھڑپ کے دوران سیکیورٹی فورسز نے دو مشتبہ عسکریت پسندوں اور اُن کے ایک مبینہ سہولت کار کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
تصادم میں ایک عام شہری بھی نشانہ بنا۔ جب کہ ایک اور ہلاک ہونے والے شخص پر پولیس نے عسکریت پسندوں کا سہولت کار ہونے کا الزام عائد کیا ہے جس کے لواحقین کا کہنا ہے کہ وہ عام شہری اور دو بچوں کا باپ تھا جس کا عسکریت پسندوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ شہری محمد الطاف بٹ دو طرفہ فائرنگ کی زد میں آ کر شدید زخمی ہوا۔ بعد ازاں وہ اسپتال میں دم توڑ گیا۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر وجے کمار نے منگل کو صحافیوں کو بتایا کہ یہ ابھی واضح نہیں کہ شہری محمد الطاف بٹ دہشت گردوں کی طرف سے چلائی گئی گولیوں کا شکار ہوا یا پھر سیکیورٹی فورسز کی فائرنگ کی زد میں آیا۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے پاس پستول تھے۔ اُسے کس کی گولی لگی یہ تحقیقات کے بعد ہی پتا چلے گا۔ جہاں تک دوسرے شخص کی ہلاکت کا تعلق ہے۔ تو ڈیجیٹل ثبوت اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے ایک اوؤر گراونڈ ساتھی کے طور پر کام کر رہا تھا۔
ہلاک ہونے والے شہری الطاف بٹ کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ اُسے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کے دوران تین بار انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا تھا۔
ان کی بھتیجی صائمہ بٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے چچا کو قتل کیا گیا ہے۔
اپنے چچا کے حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ایک جھڑپ کے دوران، جو فرضی جھڑپ معلوم ہوتی ہے، انسانی ڈھال بنایا گیا۔ جہاں مبینہ کارروائی ہوئی وہ اُس عمارت کے مالک تھے اور وہاں ہارڈوئیر کی ایک دکان بھی چلا رہے تھے جہاں سیکیورٹی فورسز پیر کی شام کو سرچ آپریشن شروع کرنے کی غرض سے آئی تھی۔
ہلاک ہونے والے دوسرے شہری مدثر گل کے اہلِ خانہ نے بھی پولیس کے دعوے کی سختی کے ساتھ تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ایک عام شہری تھے جن کا عسکریت پسندوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔
ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ منگل کو سرینگر کے مشتاق پریس اینکلیو میں جمع ہوئے تھے جہاں انہوں نے ایک احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا۔
دونوں کے اہلِ خانہ نے اُن کی میتیں انہیں سپرد کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ ان کی تدفین اسلامی اور مقامی رسوم کے مطابق کی جا سکے۔
سرینگر ہی کے راول پورہ علاقے سے تعلق رکھنے والے مدثر کی والدہ کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے کے دو کمسن بچے ہیں۔ اُس کی میت دی جائے تاکہ اُن کے بچے اُن کا آخری دیدار کر سکیں۔
علاوہ ازیں بدھ کو بھی ہلاک کیے گئے شہریوں الطاف بٹ اور مدثر گل کے رشتے داروں نے احتجاج میں اس مطالبے کو دہرایا کہ ان کی باقیات لواحقین کے حوالے کی جائیں۔
مظاہرین میں مدثر گل کی بیوہ بھی شامل تھیں جنہوں نے اپنی ایک سالہ بیٹی کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ''یہ پیر کی شام سے بابا، بابا پکار رہی ہے، میں اس سے کیا کہوں۔ میرے شوہر کی باقیات ہمیں سونپی جائیں۔ ہم ان کا آخری دیدار کرنا چاہتے ہیں، ہمیں اس سے تسلی ہو گی۔''
الطاف بٹ کے لواحقین نے بھارتی کشمیر کے سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ شہری ہلاکتوں پر بیان بازی سے آگے بڑھیں اور لواحقین کے احتجاج میں شریک ہوں۔
مبینہ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے تیسرے نوجوان عامر احمد کے والد نے پولیس کے اس بیان کی تردید کی کہ وہ ایک عسکریت پسند تھا۔ عبدالطیف ماگرے نے بتایا کہ ان کا بیٹا سرینگر کی ایک دکان پر مزدوری کرتا تھا۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا انہیں ملک سے محبت اور وفاداری کا یہی سلسلہ دینا تھا۔
ادھر پولیس نے الطاف بٹ اور مدثر گُل کی لاشیں لواحقین کے سپرد نہ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو امن و قانون کا مسئلہ پیدا ہونے کا قوی امکان تھا۔ لہٰذا پولیس نے دونوں کو از خود سپردِ خاک کر دیا۔
پولیس افسر وجے کمار نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کے مبینہ سہولت کار کن حالات میں مارے گئے اس کی چھان بین کے لیے ایک ڈپٹی انسپکٹر جنرل کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جا رہی ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ جس عمارت میں انکاؤنٹر ہوا تھا وہاں عسکریت پسندوں نے ایک ہائی ٹیک کمین گاہ قائم کی ہوئی تھی جہاں سے پولیس نے کئی موبائل فون اور کمپیوٹر برآمد کیے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مارے گئے مبینہ عسکریت پسندوں کے زیرِ استعمال موبائل فونز اور لیپ ٹاپس میں موجود مواد اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ امریکہ اور چند دوسرے ممالک میں موجود بعض افراد کے ساتھ رابطے میں تھے؟ تو پولیس افسر نے کہا کہ یہ معاملہ تحقیق طلب ہے جب تمام تفصیلات سامنے آئیں گی تو انہیں سامنے لایا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ جس کمرے میں 'ہائی ٹیک' کمین گاہ قائم کی گئی تھی اُسے مدثر گل نے جھڑپ کے دوران مارے گئے حیدر نام کے عسکریت پسند کو فراہم کیا تھا جو اس بات کی تصدیق ہے کہ وہاں بظاہر اس عمارت میں ایک کال سینٹر چل رہا تھا ۔ مدثر گُل کے لواحقین کے مطابق وہ پیشے سے ایک ڈینٹل سرجن تھے۔
پولیس افسر کا دعویٰ تھا کہ مدثر گُل نے حیدر کو سرینگر کے جمالٹہ نوا کدل نامی علاقے میں اتوار کی شام ایک پولیس پارٹی پر کیے گئے حملے کے بعد حیدر پورہ پہنچایا تھا اور وہ عسکریت پسندوں کو جنوبی کشمیر سے شمالی کشمیر منتقل ہونے کے لیے بھی عملی مدد فراہم کرتا رہا تھا۔
دوسری جانب پاکستان کے دفترِ خارجہ نے سرینگر میں ان اموات کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔
اسلام آباد سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب چار کشمیریوں کو فرضی جھڑپ میں ہلاک کیا گیا اور اس طرح یکم اکتوبر 2021 سے لے کر اب تک جموں و کشمیر میں بھارت کی فورسز نے کم سے کم 25 کشمیریوں کو فرضی جھڑپوں اور سرچ آپریشنز میں نشانہ بنایا ہے۔
بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ ماورائے عدالت ہلاکتیں، غیر قانونی گرفتاریاں، روزانہ شہریوں کو ہراساں اور بنیادی آزادیوں پر پابندیاں عائد کرنا جموں و کشمیر میں ایک معمول بن گیا ہے جو مسلسل جاری ہے۔
بیان کے مطابق بھارت کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کے بے دریغ استعمال اور بے رحمانہ پابندیوں کی کوئی بھی حد مقامی جدوجہد کو نہیں دبا سکتی۔