اپنا گھر، اپنا ملک چھوڑنے والے کے لئے شاید 'غریب الوطن' سے بہتر کوئی لفظ نہیں۔ جن گلیوں میں آپ پلے بڑھے ہوں، جن رشتوں سے آپ کو محبت اور استحکام ملا ہو وہ مجبوراً یا زبردستی چھٹ جائیں تو پھر رہ ہی کیا جاتا ہے؟ دیار غیر میں جب کوئی آپ کی ماں بولی زبان بھی نہ سمجھے تو پھر آپ کس سے اور کیسے اپنی حالت زار بیان کریں گے؟ وطن چھٹ جانے کا غم وہی انسان بہتر سمجھ سکتا ہے جو خود اس کرب سے گزر چکا ہو۔
امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک کلینک میں تمام عملہ تارکین وطن افراد پر مشتمل ہے۔ ایک عرصہ قبل بطور پناہ گزین آنے والے یہ افراد اب امریکی شہری ہیں اور آج کل افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کے اسکریننگ کی ساتھ ساتھ اک نئے ماحول میں انہیں اپنی زندگیاں پھر سے شروع کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔
فرانسسکو بے ایریا کے سینٹا کلارا میڈیکل سینٹر کا ٹی بی اور پناہ گزین کلینک اب سے چالیس سال پہلے جنوب مشرقی ایشیاء سے آنے والے پناہ گزینوں کی سکریننگ کے موقعے پر شروع کیا گیا تھا۔ آج یہاں کام کرنے والے ٹیکنشنز، نرسز اور سپورٹ اسٹاف کبھی خود بھی پناہ گزین یا مہاجر تھے۔
یہ افراد نہ اپنے ان ابتدائی مشکل دنوں کو فراموش کر پائے ہیں نہ ان شفیق لمس یا ہمدردی کے بولوں کو جو اس اجنبی ملک میں کسی اجنبی نے ان کی دلجوئی کے لئے کہے۔ وطن چھٹ جانے کا غم اور مستقبل کی بے یقینی کا خوف یہ خوب جانتے ہیں اسی لئے اب ان کی بھرپور کوشش ہے کہ یہ طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ آنے والے افغان شہریوں کو اپنا نیا گھر بسانے میں ہر ممکن مدد فراہم کریں۔
خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے یہاں کام کرنے والی نرس فام ٹرام کی آنکھیں اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بھّرا گئیں جب وہ بائیس سال کی عمر میں ویتنام سے اسی کلینک پہنچی تھیں اور گھبرائی ہوئی تھیں۔ انہیں اس وقت اپنی قسمت پر یقین نہیں آیا جب ایک نرس نے ان سے ان کی ہی زبان میں بات کی اور انہیں طبی عمل کے بارے میں تفصیل سے سمجھایا۔ آج وہ خود کے ساتھ کی گئی نیکی کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ فام پشتو یا فارسی تو نہیں جانتیں مگر ملازمت نہ ملنے یا مکان کا کرایہ ادا کرنے کی فکر میں غلطاں افغان مہاجرین کو پرسکون کرنے کی کوشش ضرور کرتی ہیں۔
ایک افغان عورت کا ہاتھ تھامے فام ٹرام بتاتی ہیں کہ وہ ہر روز جب ویتنام سے یا کسی اور ملک سے آئے افراد کو کلینک میں دیکھتی ہیں تو انہیں ان افراد میں اپنا آپ نظر آتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلان کے مطابق امریکہ میں ایک لاکھ افغان پناہ گزینوں کو آباد کیا جائے گا۔ ان میں اڑتالیس ہزار افراد پہلے ہی امریکہ کے مختلف علاقوں میں مقامی فلاحی اداروں، کلینکس اور امریکی حکومت کی مدد سے بسائے جا چکے ہیں۔
گو کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکہ کے پناہ گزین پروگرام میں بڑی کٹوتی کی گئی تھی مگر لوتھرن امیگریشن اور ریفیوجی سروس ادارے کے صدر کرش اومارا وگناراجہ کے مطابق شہریوں کی جانب سے مدد کا جذبہ بہت حوصلہ افزا رہا ہے۔
وگنا راجہ کا ادارہ مختلف ریاستوں میں اب تک چھ ہزار افغان پناہ گزینوں کو مدد فراہم کر چکا ہے۔ ان کے مطابق زندگی کی نئے سرے سے شروعات ایک ہفتے یا مہینے کا کام نہیں، ایک کامیاب زندگی بنانے میں سالوں لگ جاتے ہیں اور اس لئے ضروری کمیونٹی روابط اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
سینٹا کلارا ہسپتال کے ٹی بی اور ریفیوجی کلینک کے باہر مترجم جہاں ناز افشار مہاجرین کا دروازے پر ہی فارسی زبان میں استقبال کرتی ہیں اور انہیں کلینک کے طریقہ کار سے آگاہ کرتی ہیں۔ اس کلینک میں آنے والوں کی صحت کی جانچ کی جاتی ہے، انہیں کسی متوقع انفیکشنز کے لئے چیک کیا جاتا ہے اور ایسی ضروری ویکسینز دی جاتی ہیں جو انہیں پہلے نہ ملی ہوں۔
افشار خود سال 2004 میں ایران سےامریکہ منتقل ہوئی تھیں۔ یہ یہاں آنے والے افغانوں کو ثقافتی فرق کے بارے میں آگاہی دیتی ہیں۔ یہاں لوگ کس طرح بات کرتے ہیں۔ سفر کے لئے بس کیسے پکڑی جائے، پبلک لائبریری کیسے استعمال کی جائے اور یہ بھی بتاتی ہیں کہ یہاں اکثر لوگ بغیر کسی غرض کے بھی آپ کی مدد کے لئے آگےبڑھ سکتے ہیں۔
یہ کلینک میں کام کرنے والے عملے کی محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ یہاں پہلی بار آنے والے کئی افراد کے چہروں پر آتے وقت تو تناؤ ہوتا ہے لیکن جاتے وقت اکثر ہنستے مسکراتے بات کر رہے ہوتے ہیں۔
یہاں کام کرنے والے عملے کے پاس سنانے کے لئے ان گنت کہانیاں ہیں۔ مثلاً ایک افغان خاتون سینے میں تکلیف کی شکایت لئے کلینک پہنچیں۔ وہ اتنی پریشان تھی کہ اپنی کیفیت بھی صحیح طور نہیں بتا پا رہی تھی۔ جب نرس نے پیار سے ہاتھ تھاما تو روتے روتے بول پڑی کہ اس کا پورا خاندان ہوٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتا ہے اور وہ بہت پریشان ہے۔ دل کا بوجھ ہلکا ہوا تو سینے کی تکلیف بھی چلی گئی۔
ایک مریض نے بتایا کے اسے کام کے لئے گاڑی کی مرمت کرانے کی ضرورت ہے تو کلینک کے عملے نے اپنے کام سے ہٹ کر دو ہفتوں کے اندر اس کے لئے دو ہزار ڈالرز اکٹھے کر لئے۔ کبھی کوئی کسی کو نوکری تلاش کرنے میں مدد کرہا ہے تو کبھی نئے اپارٹمنٹ میں ضروریات زندگی جمع کرنے میں۔
مترجم افشار کے مطابق وہ یہاں آنے والے لوگوں کو بتاتی ہیں کہ زندگی مشکل ہوگی مگر آگے جا کر آپ بہت خوش رہیں گے، کیونکہ اس پورے عمل میں آپ بہت کچھ سیکھیں گے اور اس کے نتیجے میں آپ دنیاوی اور ذہنی ترقی حاصل کریں گے۔