ورچوئل اسسٹنٹ یا معاونت کرنے والے ڈیجیٹل آلات شہریوں کے لیے کئی سہولیات کا سبب بنتے ہیں۔ ان آلات سے لوگ اپنے لیے مختلف کاموں کے اوقات کا تعین کرتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں یا گھر کے مختلف آلات کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔
ان ورچوئل اسسٹنٹ کے آلات کو آواز سے بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ جہاں یہ آلات بہت سے امور میں معاون ثابت ہوتے ہیں وہیں بعض اوقات ان کا کوئی ایسا عمل سامنے آتا ہے جس سے ان کے خطرناک ہونے کا تاثر سامنے آتا ہے۔
اس کی ایک مثال حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک خاتون کرسٹین کی پوسٹ ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی 10 سالہ بیٹی نے الیکسا سے کہا کہ وہ اس کو کوئی چیلنج دے۔
کرسٹین نے سوشل میڈیا پوسٹ میں وہ اسکرین شاٹ بھی شیئر کیا ہے جس میں ایمیزون کی الیکسا ڈیوائس (ورچوئل اسسٹنٹ) نے بچی کو ایک انتہائی خطرناک چیلنج تجویز کیا ہے۔
خیال رہے کہ ایمیزون الیکسا ایک ایسی ورچوئل اسسٹنٹ ڈیوائس ہے جو کچھ پوچھنے پر جواب دیتی ہے اور اس سے مختلف ڈیوائسز کو کنیکٹ اور کنٹرول بھی کیا جاسکتا ہے۔
خاتون کے شیئر کردہ اسکرین شاٹ میں واضح ہو رہا ہے کہ الیکسا کے اسمارٹ اسپیکر نے بچی سے کہا کہ وہ موبائل فون کا ایک چارجر لے اور اس کو دیوار میں نصب کسی بجلی کے بورڈ میں نصف اندر کرے اور اس کے بعد ایک سکہ لے کر اس چارجر کے اگلے حصے کو لگائے جو کہ بورڈ میں جانے سے رہ گیا ہو۔
اس عمل سے بچی کو انتہائی شدید کرنٹ یا بجلی کا جھٹکا لگ سکتا تھا۔
سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ لگاتے ہی اس پر لوگوں کی رائے سامنے آنے لگی۔ کچھ لوگ الیکسا ڈیوائس پر تنقید کر رہے تھے جب کہ بعض لوگوں نے ٹیکنالوجی یا مصنوعی ذہانت پر سوالات اٹھائے ہیں۔
کچھ لوگوں نے ایسی ویڈیوز شیئر کی ہیں جس میں اس خطرناک عمل کے نتائج دکھائے گئے ہیں۔
دوسری جانب ایمیزون نے بھی سوشل میڈیا پر خاتون کو جواب دیتے ہوئے معذرت کی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کرسٹین سے براہِ راست رابطہ کرنے کا بھی کہا تاکہ اس مسئلے کو مستقل حل کیا جا سکے۔
بعد ازاں ایمیزون نے ایک بیان جاری کیا کہ انہوں نے اس مسئلے کا حل نکال لیا ہے۔
واضح رہے کہ ’پینی چیلنج‘ (سکے کا چیلنج) گزشتہ برس چین کی سوشل میڈیا ایپلی کیشن ’ٹک ٹاک‘ پر سامنے آیا تھا۔
ماہرین نے صارفین کو اس چیلنج میں حصہ لینے سے سختی سے منع کیا تھا اور کہا تھا کہ لوگوں کو اس چینلج کا حصہ نہیں بننا چاہیے کیوں کہ اس سے دیگر نقصانات کے ساتھ ساتھ آگ بھی لگ سکتی ہے۔