افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کے بعد 2021 میں جہاں پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو نئی جہت پر استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف رہا وہیں اسلام آباد کو امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی مخاصمت کی وجہ سے بیجنگ اور واشنگٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو متوازن رکھنے کا چیلنج بھی درپیش رہا۔
رواں برس جولائی میں داسو پن بجلی کے منصوبے پر کام کرنے والے چینی کارکنوں کی بس پر ہونے والے حملے اور چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں سرمایہ لگانے والی کمپنیوں کی شکایات کی وجہ سے پاکستان اور چین کے تعلقات کو بظاہر ایک عارضی مشکل بھی سامنے آئی۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس صورتِ حال کے باوجود پاکستان اور چین کے تعلقات معمول کے مطابق چلتے رہے ہیں۔
پاکستان کی پارلیمان کے ایوانِ بالا (سینیٹ) کی دفاعی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر مشاہد حسین سید کا کہنا ہے کہ 2021 پاکستان اور چین کے تعلقات کے حوالے سے اہم سال ہے اور اس سے مجموعی طور دونوں ملکوں کی دوستی میں پختگی آئی ہے۔
ان کے بقول 15 اگست کو افغانستان میں رونما ہونے والی تبدیلی کے بعد دونوں ملک مزید قریب آئے ہیں اور اتفاقِ رائے کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات وسیع نوعیت کے ہیں لیکن پاکستان کو یہ بھی فکر ہے کہ ان تعلقات کو مغرب خاص طور امریکہ کے ساتھ کیسے متوازن رکھا جائے۔
ان کے بقول پاکستان کے لیے یہ معاملہ بھی سنجیدہ نوعیت کا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت کے پہلے سال کے دوران امریکہ اور چین کے تعلقات میں تلخی بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
تاہم سینیٹر مشاہد حسین کہتے ہیں دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کا ماحول ہے اور پاکستان نے واضح اعلان کیا ہے کہ وہ کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔
مشاہد حسین کے بقول بھارت اور چین کے درمیان تعلقات، نئی سرد جنگ، افغانستان اور کرونا وائرس جیسے چیلنجز کی موجودگی میں پاکستان کو چین کی ضرورت ہے اور چین کو بھی پاکستان کی اتنی ہی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا "ایک طرف چین ہمارا بہترین دوست ہے اور امریکہ بھارت کو اپنا بااعتماد دوست کہتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کو واضح ہونا چاہیے کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کیسے آگے بڑھائے جائیں۔"
مشاہد حسین کے مطابق پاکستان کا خیال تھا کہ جو بائیدن کے آنے کے بعد جس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بہتر ہو گئے تھے شاید وہ بحال ہوجائیں گے لیکن اس بات کا امکان نہیں۔
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی نوعیت سرکاری ہے لیکن امریکہ اور مغرب کے ساتھ یہ تعلقات سماجی اور معاشرتی نوعیت کے بھی ہیں۔ اس پہلو کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ختم نہیں ہو سکتے اگرچہ دونوں طرف بعض شکایات کے باوجود پاکستان اور امریکہ اپنے تعلقات استوار رکھنا چاہیں گے۔
مشاہد حسین کا کہنا ہے کہ اب اسلام آباد کے لیے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں توازن رکھنے کا معاملہ نہیں ہے کیوں کہ ان کے بقول امریکہ نے اب فیصلہ کرلیا ہے کہ خطے میں اس کا اسٹرٹیجک شراکت دار کون ہے جب کہ پاکستان کے چین کے ساتھ اسٹرٹیجک تعلقات ہیں۔
مشاہد حسین کے مطابق امریکہ کو یہ سمجھ ہے کہ اگر پاکستان پر زیادہ دباؤ ڈالا گیا تو پاکستان کسی دوسری ملک کے قریب چلا جائے گا۔ اس لیے امریکہ یہ چاہے گا کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھیں۔
کیا سی پیک سست روی کا شکار ہے؟
پاکستان اور چین کے عہدیدار متعدد بار اس بات کا اعادہ کرچکے ہیں کہ سی پیک منصوبوں پر کام جاری ہے اور ان منصوبوں کے پاکستان معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ سی پیک پر کام کرنے والی چینی کمپنیوں کو یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستانی اداروں کی طرف سے بعض منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہے۔ اس وجہ سے پاکستان اور چین کے باہمی تعلقات میں شکایت کا عنصر نظر آیا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے تعلقات جاری ہیں۔
سینیٹر مشاہد حسین کے مطابق سی پیک کے مسائل سیاسی نہیں بلکہ انتظامی ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کی طرف سے واضح نہیں تھا کہ اس منصوبے کا نگران کون ہے لیکن اب باقاعدہ اس کے لیے ایک اتھارٹی قائم ہے اور اس کے سربراہان موجود ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں سرمایہ کاری بورڈ کے سابق سربراہ ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک کے پہلے مرحلے کے دوران مکمل ہونے والے منصوبوں میں توانائی کے منصوبے، شاہراؤں کی تعمیر اور گوادر میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبے شامل تھے اور یہ منصوبے 20 سے 22 ارب ڈالر کی لاگت سے مقررہ وقت میں مکمل ہو گئے ہیں۔
ہارون شریف کا کہنا ہے کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی شعبے میں تعاون ہے جس میں پاکستان نے نو اقتصادی زون بنانے تھے جس کے لیے چین کے سرمایہ کاروں کو یہاں لانا تھا۔
ان کے بقول صنعتی زون سے متعلق منصوبوں کی تکمیل سست روی کا شکار ہے اور اس کی کئی وجوہات ہیں جس میں سے ایک مختلف اداروں اور صوبوں کے درمیان رابطہ کاری کا فقدان ہے۔
ہارون شریف کہتے ہیں کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے چین میں بھی کئی معاملات میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ چینی کمپنیوں کی بیرونی ممالک سرمایہ کاری کے عمل میں سست روی آئی ہے اور اب چینی کمپنیاں ملک سے باہر محدود پیمانے پر ہی سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔
لیکن ہارون شریف نے کہا کہ سی پیک کی ایک بنیاد رکھی جا چکی ہے اور اب اس بات کا انحصار پاکستان پر ہے کہ وہ اپنی پالیسی بنا کر اس کو کیسے استعمال کرے گا کہ ملک اقتصادی طورپر فائدہ اٹھا سکے اورعوام کو روزگار کے مواقع ملیں۔