افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد پاکستان کے شہر پشاور سے افغان شہر جلال آباد کے درمیان چلنے والی 'دوستی بس سروس' کی بحالی کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں رواں ہفتے ہونے والے ایک اجلاس میں پاکستانی حکام نے پشاور تا جلال آباد بس سروس دوبارہ شروع کرنے کے لیے سیکیورٹی اور دیگر ضروری انتظامات کا جائزہ لیا ہے۔
اجلاس میں پشاور ڈویژن کے کمشنر ریاض خان محسود کے ہمراہ کئی دیگر عہدے دار بھی شریک تھے۔ حکام نے دوستی بس سروس کی بحالی کے لیے درکار انتظامات اور بسوں کی فراہمی کے معاملات کا جائزہ لیا۔
کمشنر پشاور کے ترجمان فیروز شاہ کے مطابق پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کو دوستی بس سروس کی بحالی کے لیے اقدامات کا جائزہ لینے کا کہا ہے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مطلوبہ انتظامات جنوری کے آخر تک مکمل کر لیے جائیں گے جس کے بعد بس سروس دوبارہ شروع ہونے کا امکان ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بس سروس شروع کرنے کے لیے کسی معیاری کمپنی کی خدمات حاصل کی جائیں گی اور بس و مسافروں کی سیکیورٹی کے بھی مؤثر انتظامات کیے جائیں گے۔
یاد رہے کہ پشاور اور جلال آباد کے درمیان چلنے والی بس سروس امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث 2016 میں معطل کی گئی تھی۔ گزشتہ برس طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اب اس سروس کی بحالی کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ پشاور سے جلال آباد سروس کی بحالی کے بعد دونوں ملکوں کے دارالحکومتوں کے درمیان بھی کوئی بس چلائی جا سکتی ہے۔
تاجر اور کاروباری حلقے خوش
خیبر پختونخوا کے کاروباری حلقے بس سروس کی بحالی کو پاکستان اور افغانستان کے شہریوں کے لیے خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ البتہ ان کا کہنا ہے کہ یہ تب ہی ممکن ہو سکے گا، جب طالبان انتظامیہ اور پاکستان کے درمیان مؤثر تعلقات اور رابطے ہوں گے۔
افغانستان سے ملحق پاکستان کی مصروف ترین سرحدی گزرگاہ طورخم سے تعلق رکھنے والے تاجر ابلان علی کہتے ہیں کہ طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ نظر آ رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ابلان علی نے کہا کہ اس صورتِ حال میں پشاور اور جلال آباد کے درمیان بس چلانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ان کے بقول دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے کہ وہ تعلقات بہتر بنائیں۔ سیاسی، سفارتی اور تجارتی تعلقات کی بہتری سے بس سروس کی کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
پشاور سے ملحق قبائلی ضلع خیبر کے معروف ٹرانسپورٹر شاکر آفریدی نے بھی بس سروس کی بحالی کو خوش آئند قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ سروس مکمل طور پر اور منظم انداز میں شروع کی گئی تو اس سے دونوں ملکوں کے درمیان لوگوں کی آمد و رفت کے بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ شاکر آفریدی کے بقول بس سروس کو کامیاب بنانے کے لیے طورخم بارڈر پر غیر ضروری پابندیاں بھی ختم کرنی چاہئیں۔
افغان حکومت کا مؤقف
افغان حکومت یا پاکستان میں تعینات طالبان کے سفارت کاروں نے پشاور اور جلال آباد کے درمیان بس سروس کی بحالی سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ یا سرحدی و قبائلی امور سے متعلق وزارت (سیفران) کی جانب سے بھی کسی قسم کا بیان یا ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
البتہ کمشنر پشاور کے ترجمان فیروز شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ طالبان انتظامیہ کے ساتھ رابطوں کے بعد دوستی بس سروس کی بحالی کے لیے مشاورت شروع ہوئی ہے۔
فیروز شاہ نے واضح کیا کہ اس بس میں سفر کرنے والوں کے لیے ویزا اور پاسپورٹ سمیت دیگر ضروری دستاویزات کی شرط لازمی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ بس سروس کی بحالی کا مقصد نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان آمد و رفت کو آسان بنانا ہے، بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے تعلقات میں بھی مزید بہتری آئے گی۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے محکمۂ ٹرانسپورٹ کے سیکریٹری طارق حسن نے بتایا ہے کہ پشاور، جلال آباد بس سروس کی بحالی کے انتظامات وفاقی حکومت اور وفاقی محکمۂ مواصلات کے ہدایات پر شروع کیے گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے طارق حسن نے کہا کہ بسوں کو چلانے اور دیگر انتظامات محکمۂ ٹرانسپورٹ کے سپرد کیے گئے ہیں۔ جب کہ پشاور سے طورخم تک سیکیورٹی اور دیگر معاملات صوبائی انتظامیہ کے ذریعے طے کیے جائیں گے۔
طارق حسن نے کہا کہ تمام معاملات طے ہونے کے بعد وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا جائے گا جس کے بعد بس سروس باقاعدہ طور پر بحال ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسافر بس سروس کا پسِ منظر
1960 کی دہائی کے وسط میں پشاور اور کابل کے درمیان گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کی دو بسیں چلائی جاتی تھیں۔ لیکن 1979 میں سوویت یونین کی افواج کے افغانستان میں داخلے کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ 1980 کی دہائی میں یہ سروس بند کر دی گئی۔
افغانستان میں سابق صدر حامد کرزئی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد 2006 میں 'پاک افغان دوستی بس سروس' شروع ہوئی جو 2016 میں دوبارہ بند ہو گئی۔
پاک افغان دوستی بس سروس کے سابق عہدے دار حاجی ناصر خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس وقت دونوں شہروں کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر 10 بسیں چلتی تھیں اور 500 سے 800 کے قریب مسافر اس سہولت سے مستفید ہو رہے تھے۔
ان کے بقول اگر دوستی بس سروس دوبارہ بحال ہوتی ہے تو یہ ایک خوش آئند قدم ہوگا۔