رسائی کے لنکس

’وہ مسلمان عورت کو خاموش کرانا چاہتے ہیں‘


بُلی بائی مقدمے میں گرفتار ملزمان پولیس کی تحویل میں۔ (فائل فوٹو)
بُلی بائی مقدمے میں گرفتار ملزمان پولیس کی تحویل میں۔ (فائل فوٹو)

اب سے کچھ روز پہلے تک بھارتی نژاد آمنہ کوثر امریکہ کی ایک ریاست میں اپنے خاندان کے ساتھ پر سکون زندگی بسر کر رہی تھیں۔ پھر انہیں بھارت سے ایک دوست کی فون کال موصول ہوئی جس میں انہیں بتایا گیا کہ ان کا نام بھی بلی بائی ایپ پر دیکھا گیا ہے۔

بلی بائی ایپ نومبر کے مہینے میں بنائی گئی تھی اور اسے سال نو کی شب اپ ڈیٹ کیا گیا جس کے بعد اس پر سو سے زائد مسلمان خواتین کارکنوں اور صحافیوں کی پروفائلز آن لائن نیلامی کے لیے ڈالی گئی تھیں۔

خواتین حقوق کی سرگرم کارکن، آمنہ کوثر
خواتین حقوق کی سرگرم کارکن، آمنہ کوثر

مسلمان خواتین کی آن لائن نیلامی حقیقی نہیں اور اس کا مطلب ان خواتین کی تحقیر اور ان سے نفرت کا اظہار ہے۔ اس واقعے کو بھارتی میڈیا میں نمایاں طور پر پیش کیا گیا جس کے بعد اب تک چار ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں جو اس وقت تفتیش کے لیے پولیس حراست میں ہیں۔

آمنہ بھارت میں بلی بائی ایپ کے سامنے آنے پر غم و غصّے میں تھیں کیوں کہ اس میں سو سے زائد مسلمان خواتین کی پروفائلز اور تصاویر ایک جعلی آن لائن نیلامی کے لیے ڈالی گئی تھیں۔ آمنہ ان میں سے بہت سی خواتین کو پہلے سے جانتی تھیں۔ یہ تمام ہی خواتین بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتی رہیں ہیں۔ تاہم، آمنہ کے بقول، اس میں ملالہ یوسف زئی کا نام بھی تھا جن کا بھارت سے کوئی تعلق نہیں۔

آمنہ کے مطابق اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ اس میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو نہیں خاص طور پر مسلمان خواتین کو ٹارگٹ کیا گیا یے۔

گرفتار ہونے والے افراد جن میں مبینہ طور پر اس ایپ کے کریئیٹر نیرج بشنوئی بھی شامل ہیں، کی عمریں انیس سے اکیس سال کے درمیان ہیں اور یہ سب طالب علم ہیں۔

پولیس کے مطابق نیرج بشنوئی کا گزشتہ سال جولائی کے مہینے میں منظر عام پر آنے والی 'سولی ڈیلز' ایپ بنانے والوں سے بھی رابطہ رہا ہے۔ سولی ڈیلز ایپ پر بھی 80 مسلمان خواتین کی پروفائلز آن لائن جعلی نیلامی کے لیے ڈالی گئی تھیں جہاں روز ایک خاتون کو ڈیل آف دا ڈے کے طور پر نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا تھا۔

آمنہ اب بھی اور اس سے پہلے بھی جولائی کے مہینے میں سولی ڈیلز نامی ایپ پر بھارتی مسلمان خواتین کی جعلی نیلامی کر کے ان کی ہتک کرنے کی کوشش پر ان خواتین کے لیے بڑھ چڑھ کر سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہی تھیں۔

آمنہ کا کہنا ہے کہ کل تک جن خواتین کے لیے وہ آواز اٹھاتی تھیں آج ان ہی میں خود کا نام شامل ہوتے دیکھنا ایک مختلف تجربہ تھا۔ پہلے تو یقین ہی نہیں آیا، انہیں سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا رد عمل ظاہر کریں۔

آمنہ پیشے کے اعتبار سے آئی ٹی ایکسپرٹ ہیں، اور ان کے بقول، انہیں اب سے کچھ سالوں پہلے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی نفرت پر آواز اٹھانے کے بعد انہیں کچھ دھمکیاں ملی تھیں جس کے بعد انہوں نے اپنے تمام سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے اپنی نجی تفصیلات ہٹا دی تھیں۔ آمنہ کہتی ہیں کہ بلی بائی ایپ کے واقعے نے انہیں ششدر کر دیا اور یہ سوچ کہ نہ جانے ان کو نشانہ بنانے والے ان کے بارے میں اور کیا کیا جانتے ہونگے انہیں پریشان کرنے لگی۔

اس واقعے نے ان کے ذہن میں اپنی حفاظت اور پرائیویسی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دیا۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں انہیں ایسی بھی اطلاعات ملیں کہ امریکہ میں انتہا پسند خیالات رکھنے والے بھارتی نژاد گروہوں میں، جنہیں وہ سنگھ پکارتی ہیں، ان کے نام کی بازگشت سنائی دی۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے آمنہ کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ اکثر بھارتی مسلمانوں کو دیوار سے لگانے کی کوششوں پر آواز اٹھا رہی تھیں۔ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز جوابات ملنا ان کے لیے عام بات تھی مگر یوں آن لائن نیلامی میں اپنا نام دیکھ کر انہیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ ان خواتین پر حقیقت میں کیا گزرتی ہوگی۔

آمنہ کے بقول،گو کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے فکرمند ہیں اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات کر رہی ہیں مگر امریکہ میں رہتے ہوئے وہ بلاشبہ ان تمام دوسری مسلمان خواتین کے مقابلے میں بہتر صورتحال میں ہیں جو بھارت میں رہ رہی ہیں اور ایسے واقعات نے انہیں ممکنہ نفرت انگریز کاروائیوں کے براہ راست نشانہ پر رکھ دیا ہے۔

آمنہ کوثر کے خیال میں اگر سلی ڈیلز کے موقعے پر ہی پولیس مستعدی دکھاتی اور گرفتاریاں ہوتیں تو بلی بائی ایپ کا واقعہ ہوتا ہی نہیں۔ یاد رہے ان دونوں ایپس کے نام ایسے الفاظ پر مبنی ہیں جو خواتین کی تحقیر کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔

آمنہ کا کہنا ہے کہ گو کہ اس آن لائن نیلامی کا مقصد بھی ان خواتین کی توہین کرنا ہی ہےمگر یوں ان کی تصاویر اور معلومات عام کرکے انہیں جیسے انتہاپسندوں کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے اور مستقبل میں ان خواتین کو نہ صرف ضرر بھی پہنچ سکتا ہے بلکہ ان کی جانوں کو بھی خطرہ ہے۔

آمنہ افسوس سے بتاتی ہیں کہ وہ بھارت کے دیہی علاقے میں پلی بڑھی ہیں جہاں کئی مرتبہ وہ کلاس میں تنہا مسلمان ہوا کرتی تھیں. ان کے مطابق بطور مسلمان اگر پہلے اپنا نقطه نظر دینا مشکل تھا تو سال 2014 کے بعد کے ماحول میں یہ نا ممکن ہوتا جا رہا ہے۔ اب ان کے دوست بھی اب کم ہی رہ گئے ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا آمنہ اور ان کی ساتھی خواتین خوفزدہ ہیں ان کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر خوفزدہ تو نہیں مگر رنجیدہ ضرور ہیں۔ بھارت ان کا گھر ہے اور یہاں مذہب اور نظریات کی بنیاد پر بدلتی نظریں اور بڑھتی نفرت دیکھنا ایک تکلیف دہ عمل ہے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ زیادتی کسی کے بھی ساتھ ہو خواہ وہ مذہب کی بنیاد پر ہو، جنس کی یا پھر ذات کی وہ پہلے بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں اور اب بھی یہ سلسلہ جاری رکھیں گی۔

XS
SM
MD
LG