یوکرین کے مسئلے پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور روس کے درمیان پیداہونے والا تنازع روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ یوکرین کی سرحد کے قریب بھاری تعداد میں روسی افواج کی موجودگی، جواب میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے روس اور اس کے صدر کے خلاف اقتصادی تعزیرات عائد کرنے کا انتباہ اور امریکہ کی جانب سے آٹھ ہزار سے زیادہ فوجیوں کو الرٹ رکھنے کا فیصلہ ان خدشات میں اضافہ کر رہا ہے کہ اگر بات بڑھتی ہے تو یہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ہو گا۔
یہ تنازع کہاں جا کر اور کیسے ختم ہوگا؟ اس بارے میں ماہرین حتمی طور پر کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں تاہم وہ یہ ضرور کہہ رہے کہ تمام فریق اپنے اپنے موقف پر مضبوطی سے جمے ہوئے ہیں اور اگر آنے والے دنوں میں اس مسئلے پر مزید بات چیت ہوتی ہے تو اس کے لیے اپنی اپنی پوزیشن کو مستحکم بنا رہے ہیں۔
سفیر ولیم براینٹ، ایک تھنک ٹینک ووڈ رو ولسن انٹرنیشنل سینٹر سے وابستہ اسکالر ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ بڑا سنجیدہ ہے اور ایسی کوئی صورت حال اس سے پہلے کبھی پیدا نہیں ہوئی جیسی صورت حال اب پیدا ہو رہی ہے، بقول ان کے، روس نے کچھ ایسا انداز اختیار کرنا شروع کردیا ہے جیسے وہ پھر سے سوویت یونین بن گیا ہو۔ وہ دوسرے ملکوں پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے، اور یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے بعد سے اب تک ایسا کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا۔
خیال رہے کہ روس اس بات کی بار بار تردید کر چکا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔ یا اس کے خلاف اس کے کوئی جارحانہ عزائم ہیں۔
سفیر براینٹ نے کہا کہ روس مغرب سے اس وعدے کا مطالبہ بھی کر رہا ہے کہ یوکرین کو کبھی بھی نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی خود مختار ملک پر کوئی دوسرا ملک اپنی مرضی مسلط کردے۔ اور مغربی اتحاد اسی رجحان کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بحران آنے والے دنوں میں اور زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرے گا۔ لیکن یہ کہ ان کے خیال میں کسی جُنگ کے امکانات نہیں ہیں۔
اس تنازعے میں یورپ کے رول کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ پوری طرح سے متحد ہے البتہ جرمنی کے کچھ مسائل ہیں۔ لیکن بظاہر کوئی بڑی بات نظر نہیں آتی ۔چین انتظار کرو اور دیکھو کی پالیسی پر عمل کرےگا اور انتظار کرے گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کس حد تک جا سکتے ہیں کیونکہ اس کے بھی اپنے عزائم ہیں، مگر ابھی وہ اس حد تک جارحیت کے قریب بھی نہیں ہے۔ جہاں ان کے کہنے کے مطابق روسی پہنچ گئے ہیں۔ اس سب کا آخری نتیجہ کیا نکلے گا؟ ابھی اس کا اندازہ خود فریقوں کو بھی نہیں ہے۔
بین الاقوامی امور پر پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ابھی تمام فریقوں کی اعلٰی قیادتوں کو بھی اندازہ نہیں ہے کہ یہ معاملہ کہاں جا کر رکے گا۔
ڈاکٹر زبیر اقبال کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس وقت دونوں فریق ایک دوسرے سے گیم کھیل رہے ہیں۔ یعنی یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے کسی صورت نہیں ہٹیں گے۔ اور بین الاقوامی سیاست میں یہ کھیل عام ہے۔ جس سے فریقین اپنے موقف کے لیے زیادہ سے زیادہ حمایت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں اگر روسی کارروائیوں کے جواب میں امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روس اور اس کی قیادت پر تعزیرات عائد کیں اور پھر روس نے بھی اس پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو روس اور خاص طور پر یورپ کےلیے بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ کیونکہ یورپ، روس کی گیس اور پٹرولیم پر کافی حد انحصار کرتا ہے، اور روس نے ابھی سے اپنی گیس کی ترسیل پر کنٹرول کرنا شروع کردیا ہے۔ جس کے سبب یورپ میں گیس کی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ اب اگر روس یورپ کے لیے اپنی گیس پوری طرح سے بند کردے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیا حالت ہو گی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی روس کو بھی نتائج بھگتنے پڑیں گے، کیونکہ اگر یورپ کا بڑی حد تک انحصار روسی گیس اور ایندھن کی درآمد پر ہے تو روسی معیشت کا بھی کسی حد تک انحصار اس گیس اور ایندھن کی فروخت سے ہو نے والی آمدنی پر ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ دونوں جانب سے ہونے والی posturing یا دیا جانے والا تاثر، معاملات کو کس حد تک لے جا سکتا ہے، اور بین الاقوامی معاملات میں اس posturing کا مقصد ہی یہ ہوتا کے کہ مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کا ایک ماحول پیدا کیا جائے۔
ڈاکٹر زبیر اقبال سمجھتے ہیں کہ یہ فوجی مسئلہ نہیں بنے گا۔ کیونکہ کسی فوجی تصادم کے نتائج کسی بھی فریق کے لیے اچھے نہیں ہوں گے۔ لیکن اگر نوبت تعزیرات تک پہنچی اور امریکہ اور مغربی اتحاد اور روس نے تعزیرات اور جوابی تعزیرات کا سلسلہ شروع کر دیا، تو روس کو تو مشکلات ہوں گی ہی، مگر یورپ بھی مشکلات سے بچ نہیں سکے گا۔ ان اسباب کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ یورپ میں اتنی ہم آہنگی نہیں ہے، جتنی سمجھی جاتی ہے۔ خاص طور سے جرمنی اور یورپ کےبعض چھوٹے ممالک روس سے تعلقات ٹھیک رکھنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ نہ صرف وہ اپُنی گیس اور ایندھن کی ضروریات کے لیے بڑی حد تک روس پر انحصار کرتے ہیں، بلکہ وہ یورپ میں کوئی طویل المدت تصادم اپنے حق میں بہتر نہیں سمجھتے۔
ڈاکٹر زبیر نے نے کہا کہ اسی لیے وہ سمجھتے ہیں کہ تعزیرات کو مذاکرات کے دوران ایک حربے کے طور پر استعمال کیا جائے گا جب کہ اصل مقصد مذاکرات اور ان میں اپنا موقف منوانا ہو گا اور اس کے لیے ایک جانب روس اور دوسری جانب مغربی اتحاد کو کسی نہ کسی حد تک سمجھوتے پر رضامند ہونا پڑے گا۔
یورپی معیشت دنیا کی ایک تہائی معیشت ہے اور اگر یورپ میں معیشت عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے تو عالمی معیشت پر اس کے سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ اگر ایسی صورت حال بنی تو بعض عالمی مالیاتی اداروں کے غیر رسمی تخمینوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی معاشی پیداوار میں کوئی دو فیصد کمی ہو سکتی ہے۔
اس تصادم میں چین کا رول کیا ہوگا؟ وہ کس کا ساتھ دے گا؟ ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا تھا کہ چین کی زیادہ تر برآمدات کا انحصار امریکہ اور یورپ پر ہے اس لیے وہ دیر تک غیر جانب دار نہیں رہ سکتا۔
گویا یہ ایک ایسا تنازع ہے جس نے اگر زیادہ شدت اختیار کی تو یہ کسی بھی فریق کے مفاد میں نہیں ہو گا۔ اس لیے کوشش یہی ہوگی کہ اس تنازع کا سفارتی حل نکال لیا جائے۔