ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ہری دوار اور دہلی میں منعقدہ ہندو سادھوؤں کی دھرم سنسدوں (مذہبی اجتماعات) میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف مبینہ اشتعال انگیز بیانات سے خود کو الگ کر لیا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موہن بھاگوت نے بیان دینے میں بہت دیر کر دی ہے جب کہ بعض نے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔
موہن بھاگوت نے اتوار کو ناگپور شہر میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دھرم سنسدوں میں جن نظریات و خیالات کا اظہار کیا گیا وہ 'ہندوتوا' کی نمائندگی نہیں کرتے۔ ان کے بقول دھرم سنسد میں جو کچھ بھی سامنے آیا وہ ہندو لفظ، ہندو عمل یا ہندو دماغ نہیں تھا اور وہاں ہونے والی باتوں سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔
موہن بھاگوت گزشتہ برس دسمبر میں ریاست اترکھنڈ کے شہر ہری دوار میں ہونے والی دھرم سنسد اور ریاست چھتیس گڑھ کے شہر رائے پور میں ہونے والے ہندو مذہبی اجتماعات میں کی گئی مبینہ مسلم مخالف تقریروں کے سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
ہری دوار کے اجتماع میں مبینہ طور پر ہندوؤں سے ہتھیار اٹھانے اور مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کی گئی تھی۔ جب کہ دہلی میں منعقدہ اجتماع میں بھارت کو ہندو ریاست بنانے کا عہد کیا گیا تھا۔
بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے بیان پر موہن بھاگوت نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں، کیوں کہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے بھارت ایک ہندو ریاست ہی ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں جب موہن بھاگوت نے اس طرح کا بیان دیا ہے۔ اس سے قبل گزشتہ سال جولائی میں انہوں نے دہلی کے قریب غازی آباد میں ایک تقریب کے دوران کہا تھا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا ڈی این اے ایک ہے اور بھارت میں رہنے والا ہر شخص ہندو ہے۔ طریقۂ عبادت میں فرق کی وجہ سے کسی کو ملک دشمن نہیں کہا جا سکتا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو لوگ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتے ہیں وہ ہندو نہیں ہیں۔
'مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی'
موہن بھاگوت کے حالیہ بیان کو بھارت میں ایک قانون اور ایک تہذیب کے مبینہ پروپیگنڈے کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی حامی تنظمیں ملک میں ایک تہذیب اور سب کے لیے ایک قانون متعارف کرانے کی حامی ہیں۔
آر ایس ایس کے سربراہ کے حالیہ بیان پر تجزیہ کاروں نے ملے جلے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے۔ بعض نے سوال اٹھایا ہے کہ آیا موہن بھاگوت نے دھرم سنسد میں کی جانے والی مبینہ اشتعال انگیزی پر ناپسندیدگی کا اظہار اتنی تاخیر سے کیوں کیا؟ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
تجزیہ کار ڈاکٹر ابھے کمار مشرا نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اپیل کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن مقتدر حلقے ایسے لوگوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ موہن بھاگوت نےتاخیر سے اشتعال انگیزی کی مذمت کی ہے لیکن وزیرِ اعظم نریندر مودی، وزرا اور بی جے پی کے راہنما اب تک خاموش ہیں اور اس کا مقصد ان کے بقول شدت پسند ووٹروں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ ابھی تک کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اقلیت مخالف سرگرمیوں میں ملوث افراد کو آر ایس ایس اور حکومتی ذمہ داروں کی حمایت حاصل ہے ورنہ ایسی دھرم سنسدیں منعقد نہیں ہوتیں۔
ڈاکٹر ابھے کمار کے خیال میں "یہ آر ایس ایس کا دہرا رویہ ہے کہ یہ لوگ زبان سے تو گاندھی کا نام لیتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں گوڈسے ہے۔"
'موہن بھاگوت کے بیان کی ستائش ہونی چاہیے'
دوسری جانب آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کے قریب سمجھے جانے والے دہلی کے معروف سماجی کارکن اور انٹرفیتھ ہارمنی فاؤنڈیشن آف انڈیا کے سربراہ خواجہ افتخار احمد نے موہن بھاگوت کے بیان کا خیرمقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمانوں کو بھی اس بیان کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ آر ایس ایس کو موہن بھاگوت کے نظریات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اگر موہن نے نفرت انگیز تقاریر کی مذمت کی ہے تو اس کی ستائش ہونی چاہیے۔
ان کے بقول ہری دوار دھرم سنسد میں جس طرح مسلمانوں کے قتل عام کی بات کہی گئی اس سے کوئی بھی متفق نہیں ہو سکتا لیکن مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ وہ موہن بھاگوت کے سابقہ بیانات کا پرچار کریں۔
انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے عمل میں وقت لگتا ہے لیکن مسلمان فوری تبدیلی چاہتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں عجلت میں نتائج اخذ کرتے ہیں۔
خواجہ افتخار نے الزام عائد کیا کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد نفرت انگیز بیانات کے معاملے میں بی جے پی اور آر ایس ایس کی تو مخالفت کرتے ہیں لیکن دوسری جماعتوں کے بارے میں خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ان کے خیال میں جب تک مسلمانوں کی جانب سے موہن بھاگوت کے ایسے بیانات کی حوصلہ افزائی نہیں کی جائے گی، اس وقت تک زمین پر کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔
تاہم ڈاکٹر ابھے کمار کے خیال میں آر ایس ایس کی حکمتِ عملی ہے کہ ایک طرف چھوٹے لوگ اقلیتوں پر حملے کریں اور دوسری طرف بڑے عہدے دار اس کی مذمت کریں۔ اگر آر ایس ایس کے ذمہ داران ایسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں تو مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے حملوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ ہری دوار میں نفرت انگیز تقریروں کی گونج سپریم کورٹ میں بھی سنائی دی تھی جس کے بعد پولیس حرکت میں آئی اور پہلے جتیندر نرائن تیاگی عرف وسیم رضوی کو اور پھر کئی روز بعد ایک متنازع ہندو رہنما یتی نرسنگھانند کو گرفتار کیا گیا۔ وہ دونوں اس وقت جیل میں ہیں۔