بیجنگ ونٹر اولمپکس میں شریک ہونے والوں کا استقبال شفاف نیلے آسمان نےکیا۔ چین کے دارالحکومت میں یہ ایک حیران کن تبدیلی ہے کیوں کہ محض 10 برس قبل ہی یہاں آسمان پر ہر جانب فضائی آلودگی سے دھوئیں کی ہولناک چادر تنی رہتی تھی۔
بیجنگ کو فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے البتہ اس میں اس وقت کے مقابلے میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے جب اسموگ کی وجہ سے قریبی عمارتیں بھی صاف دکھائی نہیں دیتی تھیں اور لوگ کرونا سے نہیں بلکہ آلودگی سے بچاؤ کے لیے ماسک کا استعمال کرتے تھے۔
لیکن جب سے بیجنگ میں اولمپکس کا آغاز ہوا ہے شہر کی فضا اس قدر صاف ہے کہ اس کے اطراف میں پھیلے پہاڑ نظر آ رہے ہیں جو شہر کے ماحول میں ایسی واضح تبدیلی ہے جسے ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے۔
کیا تبدیل ہوا؟
چین میں ریکارڈ فضائی آلودگی کو 2013 میں عالمی توجہ حاصل ہوئی اور عوامی سطح پر اس بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا جانے لگا۔
اس کے بعد سے چین نے ایئر کوالٹی بہتر کرنے کے لیے اقدامات کا آغاز کیا۔ شکاگو کے انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق اس کے بعد چین نے فضائی آلودگی سے ’آہنی ہاتھوں‘ سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اولمپکس کی میزبانی ملنے کے بعد چین نے یہ اقدامات تیز کر دیے تھے۔ اس سے قبل 2008 میں موسم گرما کے اولمپکس کی میزبانی کے موقعے پر بھی چین نے ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات کیے تھے البتہ اس بار یہ اقدامات بڑے پیمانے پر کیے گئے ہیں۔
انرجی پالیسی انسٹی کی رپورٹ کے مطابق بیجنگ میں فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کو کڑے معیارات کا پابند کیا گیا۔ اس کے علاوہ سڑکوں پر گاڑیوں کی تعداد بھی محدود کر دی گئی۔ مقامی حکام کو ماحول کی بہتری سے متعلق اہداف دیے گئے تھے اور گھروں میں کوئلے سے چلنے والے بوائلرز کو گیس یا بجلی کے ہیٹرز سے تبدیل کرا دیا گیا ہے۔
اس کے ساتھ ہی حکومت کی آلودگی سے متعلق ڈیٹا کی رپورٹنگ میں بہتری لائی گئی۔
بیجنگ کے شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ اب باہر نکل کر ورزش کرنے سے محظوظ ہورہے ہیں۔ ایئر کوالٹی میں بہتری سے ان کا موڈ اچھا ہوگیا ہے۔ جب کہ ماضی میں جب اسموگ ہوتی تھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سانس لینے کے ساتھ گرد و غبار منہ میں جا رہا ہے۔
کیا بیجنگ کی فضا صاف ہو گئی؟
بہتری کے باوجود بیجنگ میں گزشتہ برس فضائی آلودگی کی سالانہ اوسط عالمی ادارۂ صحت کی متعین کردہ حد سے چھ گنا زیادہ تھی۔
توانائی اور ماحولیات کی تحقیق سے وابستہ ماہر لاؤری ملیورتا کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے اطراف کوئلے سے چلنے والی صنعتیں بڑی تعداد میں موجود ہیں اس لیے فضائی آلودگی میں سنگین اضافے کے امکانات ختم نہیں ہوئے ہیں۔
البتہ چینی حکام فضائی آلودگی میں حالیہ کمی کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ برس بیجنگ میں 288 دن ایئر کوالٹی اچھی رہی جب کہ 2013 میں صرف 176 دن یہ ممکن ہو سکا تھا۔
صحت کس طرح متاثر ہوتی ہے؟
فضائی آلودگی کے صحت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں آنکھوں میں جلن اور سانس لینے میں دشواری بھی ہوتی ہے۔
بیجنگ 2019 سے مقیم میلیورتا کا کہنا ہے کہ آپ جہاں بھی جائیں کھانسنے کی آوازیں آتی ہیں۔
بچے، سانس کی بیماریوں سمیت صحت کے دیگر مسائل کا شکار افراد اور بڑی عمر کے لوگوں کو یہ اثرات زیادہ محسوس ہوتے ہیں۔ فضا کو آلودہ کرنے والے ذرات پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں اور بے ترتیب دھڑکن اور پھیپھڑوں کے دیگر مسائل کا باعث بنتے ہیں۔
انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق چین میں غریب طبقے پر آلودگی کے زیادہ سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں کیوں کہ وہ گھروں کے اندر ہوا کو صاف کرنے والے ایئر پیوریفائر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور انہیں عام طور پر کھلی فضا میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
مستقبل میں کیا ہوگا؟
چین 2060 تک کاربن نیوٹرل ہونے کا عزم ظاہر کر چکا ہے۔ روزمرہ سرگرمیوں سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج اور ماحول میں اس کے جذب یا ختم کرنے میں توازن پیدا کرنے کو کاربن نیوٹرل کہا جاتا ہے۔
انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ کے شریک مصنف گیوجون کا کہنا ہے کہ چین نے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں کمی میں غیر معمولی پیش رفت کی ہے ۔ چین میں ہوا اور شمسی توانائی سے بجلی کی پیداوار پر بہت کام ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین میں فضائی آلودگی میں کمی سےمتعلق مثبت تبدیلیاں آ رہی ہیں اور ان کے نتائج کے لیے وقت درکار ہو گا۔ البتہ اولمپکس جیسے کسی اہم موقعے کے لیے فیکٹریوں کی عارضی بندش جیسے اقدامات کرکے آسمان کو صاف شفاف رکھا جا سکتا ہے۔