رسائی کے لنکس

حوثیوں کے زیرِ استعمال اسلحہ ایرانی ساختہ ہے: ماہرین


یمن میں فوج کا پہرہ (فائل فوٹو)
یمن میں فوج کا پہرہ (فائل فوٹو)

یمن کے حوثی باغیوں کی جانب سے متحدہ عرب امارات پر میزائلوں اور ڈرون حملوں کے ایک سلسلے کے بعد امریکی فوج متحدہ عرب امارات کے لیے اپنی مدد میں اضافہ کر رہی ہے۔ امریکہ کی سینٹرل کمان کے سربراہ جنرل فرینک میکینزی، جو مشرق وسطی میں امریکی افواج کے امور کے ذمہ دار ہیں، متحدہ عرب امارات کے دفاع کو بڑھانے اور مضبوط بنانے کے لیےخود یو اے ای گئے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خلیج کے اس ملک پر حملے بزنس اور سیاحت کے ایک مرکز کی حیثیت سے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، جہاں سیکیورٹی کے سخت انتظامات ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے لیے ڈیل گیولک کی رپورٹ کے مطابق جنرل فرینک میکنزی نے متحدہ امارات سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ یمن میں میدان جنگ میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کو ہونے والے نقصانات، متحدہ عرب امارات کے دار الحکومت پر ان حالیہ حملوں کا محرک بنے ہوں، جہاں ایک فوجی اڈے پر امریکی فوجی بھی متعین ہیں۔

یمن کی سات سالہ جنگ میں حوثی، سرکاری فوجوں کے خلاف برسر پیکار ہیں جنہیں سعودی عرب اور ایک عرب اتحاد کی حمایت حاصل ہے۔ اس اتحاد میں متحدہ عرب امارات یا یو اے ای بھی شامل ہے۔ اس تصادم میں جسے دوسرے ملکوں کی نیابت میں ہونے والی جنگ کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے اور جس میں ایران پراس میں ملوث ہونے کا الزام لگا یا جاتا ہے اور جسے ایران مسترد کرتا ہے، ہزاروں یمنی مارے جا چکے ہیں۔ اور اس جنگ نے دنیا کے بد ترین انسانی بحرانوں میں سے ایک کو جنم دیا ہے۔

امریکہ اور اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے ایران کی جانب سے حوثیوں کو اعلیٰ قسم کے ہتھیار اسمگل کرنے کے شواہد حاصل کیے ہیں۔ جنرل میکنزی نے کہا کہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل، جو یمن سے چلائے گئے اور یو اے ای میں داخل ہوئے، وہ یمن میں ایجاد نہیں ہوئے۔ نہ وہاں ان کو ڈیزائن کیا گیا نہ وہاں بنایا گیا۔ چنانچہ میرے خیال میں ہم اس میں یقیناً ایران کا تعلق دیکھتے ہیں۔

یمن تنازع ہے کیا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:33 0:00

روم کے سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹڈیز میں گیوسپے ڈینٹس مشرق وسطیٰ کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کو انہوں نے بتایا کہ حوثی ان حملوں کو اپنے مطالبات منوانے کے لیے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مضبوط اشارہ ہے جو بتاتا ہے کِہ خلیج کے علاقے میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔ اور حوثی ان تمام علاقوں پر حملہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔

لندن کےکنگز کالج میں اسکول آف سیکیورٹی سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر آنڈریاز کریگ اس بات سے متفق ہیں کہ حوثی حملے یو اے ای کی خلیج کے علاقے میں ایک تجارتی اور سیاحتی مرکز کی حیثیت کے لیے خطرہ ہو سکتے ہیں۔ اور سرمائے اور سیکیورٹی کے لیے اس کی شہرت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

ابھی حال تک بھی متحدہ عرب امارات ایسے میزائل اور ڈرون حملوں سے محفوظ تھا جیسے کہ حوثی پڑوسی ملک سعودی عرب پر کرتے رہے ہیں۔

امریکی محکمہ دفاع کا کہنا ہے کہ جدید ایف22 لڑاکا جیٹ طیارے متحدہ عرب امارات بھیجے جا رہے ہیں۔ اور گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائر۔ یو ایس ایس “کول” اپنی بحریہ کی خلیج کے پانیوں میں ممنوعہ سامان کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے میں مدد کرے گا۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن حوثیوں کو ایک بار پھر بین ا لاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر غور کر رہا ہے۔ گزشتہ سال فروری میں اسے بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے نکال لیا گیا تھا۔ یو اے ای نے انہیں پھر سے اس فہرست میں ڈالنے کے لیے کہا ہے۔

XS
SM
MD
LG