امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ مشرقی یوکرین سے متعلق روسی ڈوما کی قرارداد 'مِنسک سمجھوتوں' کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اور اس سے یوکرین کی کشیدگی کے معاملے پر روس کی جانب سے اختیار کردہ سفارت کاری پر سوالات اٹھتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ نےروسی قانون سازوں کی جانب سے مشرقی یوکرین سے علیحدہ ہونے والےروس کے حامی دو علاقوں کو آزاد ملک تسلیم کیے جانے کےحق میں قرارداد منظور کرنے کی مذمت کی ہے۔
روس کے ایوان زیریں نے منگل کو ایک قرارداد منظور کی جس میں صدر ولادیمیر پوٹن سے کہا گیا ہے کہ ڈونیسک اور لہانسک کی جمہوریاؤں کو تسلیم کیا جائے، جنھوں نے سال 2014ء میں یوکرین سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا، جب یوکرین کے انقلاب کے دوران صدر وکٹر یانکو وچ کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
یورپی یونین نے روس پر زور دیا ہے کہ وہ روسی پالیمان کے ایوان زیریں کی منظور کردہ قرارداد پر عمل درآمد نہ کریں۔ قرارداد کی منظوری کے نتیجے میں روس اور مغربی ملکوں کے مابین کشیدگی میں مزید اضافے کا امکان ہے، جب کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحدوں کے ساتھ فوج تعینات کرنے کے معاملے پرپہلے ہی تناؤ شدت اختیار کرچکا ہے، جس سے روسی حملے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
روس نے اس بات کو مسترد کیا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے؛ اورالزام لگایا ہے کہ کشیدگی کو مغربی ملک ہوا دے رہے ہیں۔
ایک بیان میں، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس اپیل کی منظوری کے پیچھے کریملن ہی کا ہاتھ ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ روس کی حکومت منسک سمجھوتوں کو یکسر مسترد کرتی ہے، جن معاہدوں میں اس عزم کا اظہار کیا گیاتھا کہ یوکرین کے ڈونباس کے خطے کے اُن علاقوں کے مکمل سیاسی، سماجی اور معاشی انضمام کو یقینی بنایا جائے گا، جنھیں 2014ء میں روسی قیادت کی فوج اور اس کی جانب سے لڑنے والوں نے قبضہ جما لیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایسی کسی قرارداد کے منظور کیے جانے کے نتیجے میں یوکرین کی سالمیت اور علاقائی یکجہتی کو نقصان پہنچے گا جو کہ بین الاقوامی قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہو گی۔
انھوں نے کہا کہ ایسے عمل کے نتیجے میں یوکرین کے بحران کے پرُ امن حل کی تلاش کے لیے روس کی جانب سے سفارت کاری جاری رکھنے کے ارادوں پر شک و شبہ بڑھے گا، جس پر امریکہ اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کی مربوط شرکت کے ساتھ فوری اور بھرپور جواب دے گا۔
ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ پوٹن نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کی درخواست کو ذہن نشین کرلیا ہے، لیکن یہ بات منسک سمجھوتوں سے مطابقت نہیں رکھتی جن کا مقصد تنازعہ ختم کرنا ہے۔
دوسری جانب، روس کے دباؤ کی پرواہ کیے بغیر بدھ کو یوکرین کے عوام نے قومی اتحاد کا بھرپور مظاہرہ کیا، ایسے میں جب مغربی ملکوں نے انتباہ جاری کیا ہے کہ روس کی جانب سے سرحد سے کچھ فوجی دستے واپس بلانے کے دعوے کے باوجود، ایسے شواہد نہیں ملے کہ روس نے ایسا کوئی اقدام اٹھایا ہے۔
کیف سے ایسو سی ایٹڈ پریس کی خبر کے مطابق، روس نے بدھ کو یوکرین پر حملہ نہیں کیا، لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اب بھی کسی جارحیت کے واضح خدشات موجود ہیں، جس سے یورپ کی سلامتی اور معاشی استحکام کو خطرہ لاحق ہوگا۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اس بحران کے پرامن حل کا راستہ اختیار کرنے کے خواہاں ہیں جب کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے وعدہ کیا ہے کہ امریکہ سفارت کاری کو ''ہر ممکن موقع دینے کے لیے'' تیار ہے؛ لیکن انھوں نے روس کے ارادوں پر شکوک کا اظہار کیا۔ بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرین کی سالمیت کے معاملے پرکسی سودے بازی کی اجازت نہیں دیں گے۔
روس نے یوکرین کے مشرق، شمال اور جنوب میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ روس نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ وہ یوکرین پر حملے کا ارادہ رکھتا ہے، اس نے چند فوجی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے جب کہ اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ پوتن نے مکمل فوجی انخلا کے عزم کا اظہار نہیں کیا، روسی بیانات کا مقصدایسے ماحول میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنامعلوم ہوتا ہے، جب کئی ہفتوں سے مشرق اور مغرب کے درمیان کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔
روسی وزارت دفاع کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے جس میں بکتربند گاڑیوں سے لدی ہوئی ایک مال گاڑی کو ایک پُل پرکرائمیا سے دور جاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، بحر اسود پر واقع اس جزیرے کو روس نے 2014ء میں ضم کرلیا تھا۔ اعلان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مغربی علاقے سے مزید ٹینک بردار دستوں کو ریل گاڑی میں سوار کیا گیا ہے جو عسکری مشقوں کے بعد اپنے مستقل اڈوں کی جانب واپس جا رہے ہیں۔
ادھر، امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ''ہم نے انخلا ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ (پوتن) گولی چلا سکتے ہیں۔ وہ آج بندوق کی لبلبی کھینچ سکتے ہیں۔ کل ایسا کرسکتے ہیں۔ وہ آئندہ ہفتے ایسا عمل کر سکتے ہیں۔ فوجی تعینات ہیں۔ وہ یوکرین کے خلاف ایک بار پھر جارحیت کرسکتے ہیں'۔
دوسری جانب، برسلز میں نیٹو وزرائے دفاع کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ''اتحاد نے روسی فوجی انخلا کے کوئی آثار نہیں دیکھے۔ انھوں نے کہا کہ 'اگر واقعی وہ فوجیں واپس بلانے کا آغاز کرتے ہیں، تو ہم اس کا خیرمقدم کریں گے، لیکن ایسا اقدام نظر آنا چاہیے''۔
اسی طرح، یوکرین کے صدر ولادومیر زیلنسکی نے فوج کے انخلا سے متعلق روسی دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تو ایسا کوئی ثبوت نہیں دیکھا۔ عسکری مشقوں میں حصہ لینے والے اپنے فوجیوں سے بات کرتے ہوئے، زیلنسکی نے کہا کہ جب میں آپ کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے آج اور کل پر اعتماد بڑھ جاتا ہے۔
بدھ کو یوکرین میں 'یوم قومی اتحاد' منایا گیا۔ قوم سے خطاب کرتے ہوئے، زیلنسکی نے کہا کہ ہماری خواہش امن کے ماحول میں متحد رہنا ہے۔ اگر ہم متحد ہیں تو ہی ہم اپنے وطن کا دفاع کرسکتے ہیں۔ملک بھر کے تمام عمر کے افراد نے یوکرین کا قومی اتحاد کا دن منایا، جس دوران لوگوں نے پرچم اٹھا رکھے تھے اور انہوں نے گھروں کی کھڑکیوں پر یوکرین کے جھنڈے آویزاں کیے۔
(خبر میں شامل مواد ایسو سی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لیا گیا ہے)