امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یوکرین میں روس کی کارروائیوں کو 'حملے کا آغاز' قرار دیتے ہوئے روس کے بینکوں اور اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے خلاف سخت مالی پابندیوں کا حکم دے دیا ہے۔ امریکہ کے اس فیصلے کے بعد روس اور مغرب کے درمیان مخاصمت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے جب کہ روس کےاراکینِ پارلیمان نے بھی صدر ولاد یمیر پوٹن کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے ملک سے باہر فوجی طاقت کا استعمال کر سکتے ہیں۔
وائٹ ہاوس سے ایک بیان میں صدر جو بائیڈن نے صدر پوٹن کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا اور کہا کہ یوکرین پر روس کے حملے کا آغاز ہو چکا ہے۔
بائیڈن نے وعدہ کیا کہ اگر پوٹن مزید آگے بڑھتے ہیں تو مزید سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔امریکہ کے صدر نے یہ اقدام یورپی یونین کے 27 رہنماؤں کی تائید کے ساتھ اٹھایا جنہوں نے منگل کے روز روس کے عہدیداروں کو یوکرین سے متعلق اقدامات پر ہدف بنانے والی ابتدائی پابندیوں پر اتفاق کیا تھا۔
جرمنی نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ نارڈ سٹریم ٹو نامی گیس پائپ لائن پر کام روک رہا ہے۔ یہ گیس پائپ لائن روس کے لیے ایک ایسا فائدہ مند منصوبہ ہے جس کی طرف وہ طویل عرصے سے دیکھ رہا ہے۔ لیکن امریکہ اس منصوبے پر تنقید کرتا ہے کیوںکہ اس سے یورپ کا روس پر توانائی کے لیے انحصار بڑھ جاتا ہے۔
صدر جو بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کے بارے میں پوٹن کے دعوے ہم میں سے کسی کو دھوکے میں نہیں رکھ سکتے۔
بائیڈن نے کہا کہ وہ روس کی ہمسایہ ریاستوں ایسٹونیا، لیتھوینیا اور لیٹویا کے لیے مزید امریکی فوجی بھجوا رہے ہیں جو روس کی سرحد کے ساتھ نیٹو کے فوجی دستوں میں شامل ہوں گے۔ ایسٹونیا کے وزیراعظم اور لیٹویا اور لتھوینیا کے صدور نے جمعے کے روز امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس سے براہ راست درخواست کی تھی کہ امریکہ ان بالٹک ریاستوں میں اپنی موجودگی میں اضافہ کرے۔
خطاب میں صدر جو بائیڈن نے کہا کہ امریکہ روس کے دو مالیاتی اداروں پر مکمل طور سے پابندی اور روس کے لیے قرضوں پر جامع پابندی عائد کر رہا ہے۔ جو بائیڈن کے بقول ان پابندیوں کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے روس کی حکومت کو مغرب کے مالیاتی اداروں سے منقطع کر دیا ہے۔ ان پابندیوں کے بعد روس مغرب سے رقوم حاصل نہیں کر سکے گا اور یورپی مارکیٹوں سے نئے قرضے پر تجارت نہیں کر سکے گا۔
امریکہ کے صدر نے یہ پابندیاں ایسے وقت میں عائد کی ہیں جب روس کی فوجیں مشرقی یوکرین کے باغیوں کے کنٹرول والے دو علاقوں میں داخل ہوئی ہیں اور روس نے ان علاقوں کو خود مختار تسلیم کر لیا ہے۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ روس نے کتنی بڑی تعداد میں اپنی فوجیں ان علاقوں میں تعینات کی ہیں۔ یوکرین اور اس کے مغربی اتحادی ایک طویل عرصے سے کہتے آ رہے ہیں کہ روس کے فوجی علاقے میں لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ماسکو نے ہمیشہ اس دعوے کی تردید کی ہے۔
قبل ازیں روس میں پارلیمان کے ایوان بالانے جسے فیڈریشن کونسل کہا جاتا ہے، ایک رائے شماری کے بعد صدر پوٹن کو متفقہ طور پر مکمل اختیار دیا ہے کہ وہ ملک سے باہر فوجی طاقت استعمال کر سکتے ہیں۔ جس کے بعد پوٹن کو اپنی فوجیں یوکرین میں باغیوں کے علاقے میں بھجوانے کے لیے باضابطہ طور پر اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ اس علاقے میں آٹھ سال سے جاری تنازعے میں اب تک 14 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔