روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کو یوکرین کے مشرق میں باغیوں کے زیرِ کنٹرول دو علاقوں ڈونیسک اور لوہانسک کو خود مختار علاقے تسلیم کرلیا ہے۔ ماسکو کے اس اقدام کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے روس پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
روس نے یوکرین کے جن علاقوں کو خود مختار تسلیم کیا ان میں 2014 سے شورش جاری تھی اور روس نواز باغی آٹھ سال قبل یہاں آزاد حکومتیں قائم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
ڈونیسک اور لوہانسک یوکرین کے مشرقی خطے ڈونباس میں واقع ہیں جو ملک کا صنعتی علاقہ ہے۔ اس خطے میں بڑے پیمانے پر کان کنی بھی ہوتی ہے۔
ڈونیسک ڈونباس خطے میں ہونے والی کان کنی کا مرکزی شہر ہے۔دوسری جانب پندرہ لاکھ آبادی کا شہر لوہانسک ایک صنعتی شہر ہے۔
قطر کے نشریاتی ادارے ’الجزیرہ‘ کے مطابق یہ خطہ یوکرین کے لیے اسٹیل کی پیداوار کا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کوئلے کے بھی ذخائر موجود ہیں۔
روس نے 2014 میں یوکرین کے وسیع علاقے کرائمیا پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد ہی سے روس کے حمایت یافتہ باغیوں نے ڈونیسک اور لوہانسک میں خود مختار حکومتوں کے قیام کا اعلان کیا تھا۔بعد ازاں یہاں خود مختاری کے لیے ریفرنڈم بھی ہوئے البتہ اس اقدام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
امریکہ کے اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کےمطابق ڈونیسک اور لوہانسک کو دو مختلف انتظامیہ کنٹرول کرتی ہیں۔ ڈونیسک میں ڈونیسک پیپلز ری پبلک (ڈی پی آر) جب کہ لوہانسک میں لوہانسک پیپلز ری پبلک (ایل پی آر) انتظامی امور سنبھالے ہوئے ہیں۔
ان دونوں علاقوں میں قابض باغی پورے خطے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے صرف ایک تہائی علاقے کا کنٹرول ہے۔
روس نے 2015 میں ان علاقوں کی خود مختاری تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا اور ایک امن منصوبہ بھی پیش کیا تھا۔ اس کے بعد سے روس کو اس علاقے میں براہِ راست مداخلت کا موقع مل گیا۔
یوکرین اور باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں کے درمیان سرحد کو ’لائن آف کانٹیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔
خود مختاری کا اعلان کرنے کے بعد دونوں علاقے یوکرین کی مرکزی حکومت سے مکمل آزادی کے خواہاں ہیں۔ ان دونوں علاقوں میں باقاعدہ انتظامی سربراہ بھی موجود ہیں۔
ڈونباس کا یہ خطہ یوکرین اور روس کے درمیان ثقافتی جنگ کا بھی مرکز ہے۔ اس خطے میں روسی زبان بولنے والے بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اس لیے ماسکو کا دعویٰ ہے کہ ان لوگوں کو یوکرین کے قومیت پسندوں سے محفوظ بنانا ضروری ہے۔
واضح رہے کہ جنگِ عظیم دوم کے بعد سوویت یونین کے زمانے میں ایک بڑی تعداد میں روسی بولنے والے مزدوروں اور دیگر کام کرنے والوں کو یہاں بھیجا گیا تھا۔
سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل یوکرین روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمہ ہوا تو یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں البتہ یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی تاریخی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔
روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب کیف قدیم روسی سلطنت کا دار الحکومت بنا تھا اور سن988 میں شہزادہ ولادیمر نے روس کو آرتھوڈکس مسیحیت سے متعارف کرایا تھا۔آج یہی شہر یوکرین کا دارالحکومت ہے۔
سن 1654 میں روس اور یوکرین ایک معاہدے کے تحت زارِ روس کی سلطنت میں متحد ہوگئے تھے اور بعد میں یہ سوویت یونین میں بھی ساتھ رہے۔
مبصرین کے مطابق سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل روسی سلطنت کے دور ہی سے یوکرین کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی کوششوں کو دبایا گیا۔ اس کے لیے یوکرین کی زبان پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔ 1917 کے انقلاب کے بعد بھی بالشویک فوجوں نے یوکرین پر حملے جاری رکھے اور یوکرین کے علیحدہ ملک بننے والی کسی آواز کو سر نہیں اٹھانے دیا۔
روس میں انقلاب کے بعد 1920 سے 1930 کے دوران سوویت آمر جوزف اسٹالن نے یوکرین کے علیحدہ ریاست بننے کے امکانات ختم کرنے کے لیے وہاں کے دانشوروں اور کسانوں کے خلاف دہشت گردی کی منظم کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔سوویت دور کے آخری برسوں تک یوکرین کی علیحدہ حیثیت کے حامیوں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ رہیں۔
اس تاریخی پس منظر کی وجہ سے آزادی کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے اپنے روابط بڑھانا شروع کیے۔
نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد کا حصہ بنانا شروع کیا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین ایک بالادست قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اسی لیے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یورپی ممالک نے روس کے اثر سے نکلنے کے لیے نیٹو کا رُخ کرنا شروع کیا۔ یوکرین بھی ان ممالک میں شامل تھا البتہ سوویت یونین میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔
یوکرین ایک کمزور معیشت ہے اور اس کی سیاست میں روس کے حامی اور مغربی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی حمایت کرنے والے گروہوں میں کشمکش جاری رہتی ہے۔
روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے یوکرین کے اس وقت کے صدر وکٹور یانوکووچ نے 2014 میں ماسکو سے تعلقات بڑھانے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں یانوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔
علاقائی سیاست میں روس نے اسے اپنے لیے پسپائی تصور کیا اور اس کے ردعمل میں 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کردیا۔
کرائمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں پیش قدمی شروع کر دی تھی۔
یوکرین کے مشرقی صنعتی مرکز ڈونباس میں روس کے کئی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں اور وہاں ہونے والی لڑائی میں اب تک 14 ہزار سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔
لڑائی میں شدت آنے کے بعد یوکرین کے مقابلے میں علیحدگی پسندوں کو پسپائی ہونے لگی تو روس نے ان کی مدد کے لیے مشرقی یوکرین پر حملہ کیا۔
جرمنی اور فرانس کی مصالحت سے 2015 میں یوکرین میں جنگ بندی ہوئی لیکن صورت حال کا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوسکا اور وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
گزشتہ برس کے دوران مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو گیا اور اس وقت جنگ کے خطرات منڈلانے لگے جب روس نے یوکرین کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کر دی۔
روس یوکرین پر 2015 کی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے لیے مغربی ممالک کو بھی موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔
اس معاہدے کو روس کی کامیابی قرار دیا جاتا تھا کیوں کہ اس کے ذریعے یوکرین کو باغیوں کے زیر اثر علاقوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کا پابند کیا گیا تھا۔
اس معاہدے میں یوکرین نے علیحدگی پسندوں کے لیے عام معافی کی پیش کش بھی کی تھی۔ یوکرین بھی روس پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔
یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے اور اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے پر روس امریکہ اور نیٹو کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔
روس کا الزام ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کو باغیوں سے وہ علاقے واپس لینے کے لیے طاقت کے استعمال پر اکسا رہے ہیں جن کا کنٹرول انہوں نے 2014 میں حاصل کیا تھا۔
یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے لیکن 2008 سے عندیہ دے رہا ہے کہ وہ جلد اس اتحاد کا حصہ بن جائے گا۔ 2014 میں روس کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے یوکرین مغربی ممالک کے قریب ہوا ہے۔
یوکرین نے نیٹو کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ امریکہ سے ٹینک شکن میزائل اور ترکی سے ڈرون بھی حاصل کیے ہیں۔
کرائمیا کا کنٹرول سنبھالنے اور مشرقی یوکرین میں باغیوں کی مدد کے تناظر میں یوکرین اور امریکہ اپنے بڑھتے ہوئے باہمی تعاون کو درست اقدام قرار دیتے ہیں۔
بعض مبصرین دعوی کرتے ہیں کہ یوکرین کا نیٹو اور امریکہ سے بڑھتا ہوا تعاون بھی روس کے حالیہ اقدامات کے اسباب میں شامل ہے۔