رسائی کے لنکس

رپورٹر کی ڈائری: ’ہمیں کہا گیا دو گھنٹے میں نکل جائیں ورنہ آپ روس میں ہوں گے‘


 ہمیں نظر آیا کہ لوگ ایک مکان کے سامنے جمع ہیں جہاں بظاہر کچھ ہی دیر پہلے بمباری ہوئی تھی کیوں کہ مکان کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ فائل فوٹو
ہمیں نظر آیا کہ لوگ ایک مکان کے سامنے جمع ہیں جہاں بظاہر کچھ ہی دیر پہلے بمباری ہوئی تھی کیوں کہ مکان کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ فائل فوٹو

[یوکرین پر روس کی فوجی کارروائی کا آغاز ہوا تو وائس آف امریکہ کی نمائندہ برائے مشرق وسطیٰ ہیتھر مرڈوک حملے کی زد میں آںے والے مشرقی یوکرین کے شہر میں موجود تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے بعد انہوں نے اس سرحدی شہر سے یوکرین کے دارالحکومت کیف تک کا سفر کیا۔ وی او اے کے لیے ان کی یہ تحریر دوران سفر ان کے مشاہدات پر مشتمل ہے۔]

صبح سویرے پانچ بجے کا وقت ہو گا کہ فون بجنے لگے، واٹس ایپ، سگنل اور فیس بک پر ایسے پیغامات کا سیلاب آ گیا کہ ہم نے کیف میں دھماکہ سنا ہے۔ ماریوپول میں بھی ایسی آوازیں سنی گئی ہیں یا کراماٹوسک میں بمباری ہوئی ہے اور ایسی اطلاعات کا تانتا بندھ گیا۔

کچھ وقت کے بعد ہی سلیوینسک میں اپنے ہوٹل میں بھی ہمیں دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ عسکری اعتبار سے اہم مقام سے صرف 20 کلو میٹر دور ایک خاموش علاقے میں ہم اس صورتِ حال کے لیے پہلے سے تیار تھے بلکہ پہلے کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی تیاری شروع کرچکے تھے۔

اگلے ہی گھنٹے ہماری ترجمان نے ہمیں بتایا کہ اب اس کا ہمارے ساتھ مزید کام کرنا خطرے سے خالی نہیں اور اسی طرح کئی ڈرائیورز نے بھی یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ ان بحرانی حالات میں اپنے اہلِ خانہ سے دور جانے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔

صبح آٹھ بجے تک سڑکوں پر لوگ ہی لوگ تھے۔ سودا سلف اور دواؤں کے اسٹورز پر بھیڑ لگ چکی تھی اور اے ٹی ایمز کے سامنے لمبی قطاریں نظر آئیں۔

وہاں ایک قدرے نو عمر ماں ایسی بھی تھی جو کچھ دیر کے لیے بمباری تھمنے کے بعد دوردراز گاؤں میں اپنے شوہر اور بیٹی کو چھوڑ کر صبح سویرے نکلی تھی اور 30 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے صرف نقد رقم نکالنے شہر کے ایک اے ٹی ایم کے باہر اپنی باری کے انتظار میں تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم اپنی تیاری کر رہے ہیں لیکن ہمیں پوری امید ہے کہ کچھ نہیں ہوگا۔

’دو گھنٹے بعد روس میں ہوں گے‘

جو کچھ ہورہا تھا اس نے شاید چند عالمی رہنماؤں کو حیرت زدہ نہ کیا ہو لیکن پورا یوکرین شدید صدمے کی گرفت میں تھا۔ صبح سویرے بمباری کے بعد روس کی فوجیں مختلف سرحدوں سے یوکرین میں داخل ہونا شروع ہوچکی تھیں۔

دوپہر تک ہم یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر خارکیف پہنچ چکے تھے جو روس کی سرحد سے زیادہ دور نہیں ہے۔ عام طور پر یہ علاقہ پُرسکون ہی رہتا ہے۔ یہاں گنے چنے ہوٹل ہیں ان میں سے ایک کھلا ہوا تھا جس کا ہر کمرہ بک ہو چکا تھا۔ زیادہ تر کاروبار بند تھے۔

اب سوال تھا کہ ہم کہاں جائیں؟ ہم نے اپنے دوستوں اور رفقائے کار سے رابطے کیے، سوشل میڈیا پر تلاش شروع کی اور اسی اثنا میں ہماری ملاقات انٹن سے ہوئی ۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کینسر کے معالج ہیں۔ ان کے ایک بھائی شہر سے کچھ گھنٹے کے فاصلے پر سفر کررہے ہیں اور وہ بتا رہے ہیں کہ روسی فوج راستے میں ہے۔

انٹن کا کہنا تھا: ’’اگر آپ یہاں رکے رہے تو دو گھنٹے بعد آپ روس میں ہوں گے۔‘‘

ہم نے دیکھا!

دو گھنٹے بعد میں اور ساتھی ویڈیو گرافر ین بوئیچٹ ایک پر جوش نوجوان ڈرائیور ایگا کے ساتھ کیف کی جانب رواں دواں تھے۔ راستے میں ہمیں کئی جگہ جلتی ہوئی بسیں نظر آئیں۔ ایک گلی کے کنارے ہمیں خالی فوجی ٹرک سے سیاہ دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔

ہم کچھ ہی دور آگے بڑھے ہوں گے کہ ہمیں نظر آیا کہ لوگ ایک مکان کے سامنے جمع ہیں جہاں بظاہر کچھ ہی دیر پہلے بمباری ہوئی تھی کیوں کہ مکان کی عمارت سے شعلے اٹھ رہے تھے۔ کچھ ہی فاصلے پر ایک فوجی ٹرک کے پاس کچھ سپاہی سکتے کی حالت میں کھڑے تھے اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ یہ طے نہیں کر پا رہے ہیں کہ انہیں اس صورتِ حال میں کیا کرنا چاہیے۔

ان حالات میں کیف کا سفر کرنا بہت اچھا انتخاب نہیں تھا کیوں کہ صبح ہی سے بمباری کی اطلاعات آ رہی تھیں اور شام تک وہاں براہِ راست تصادم متوقع تھا۔ لیکن جہاں تک ہم سمجھ پائے تھے کیف ہی وہ مقام تھا جو فوری طور پر روس کی فوج کے ہدف پر نہیں تھا۔

کچھ گھنٹوں بعد۔۔۔

دارالحکومت کی جانب سفر کرتے ہوئے اب ہمیں کئی گھنٹے گزر چکے تھے لیکن ہمیں راستے میں بمباری یا حملے کے کوئی آثار نظر نہیں آئے۔

ہم یہ بھی سن رہے تھے کہ روس نے میدان میں اپنی بالادستی ثابت کرنے کے بعد شاید دوبارہ بات چیت شروع کرنے کے لیے حملے روک دیے ہیں۔ لیکن اس وقت تک روسی فوج کی نقل و حرکت اور ان کے اہداف کے بارے میں کوئی بات واضح نہیں تھی۔

صبح سے روسی ٹینک یوکرین میں داخل ہونے کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش میں تھیں لیکن ہم نے پیش قدمی کرتے روسی فوجیوں کی ایسی کوئی تصویر سوشل میڈیا پر نہیں دیکھی تھی۔

یوکرین میں پھنسے پاکستانی طلبہ انخلا کے منتظر
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:39 0:00

ہم نے یوکرین کے ٹینکوں اور بھاری توپ خانے کو سرحد کی جانب جاتے دیکھا لیکن ہم یہ بھی سن رہے تھے کہ پورے دن کی افرا تفری اور صبح سویرے ہونے والی بمباری کے بعد قصبے اور شہر اب خاموش ہو چکے ہیں۔ روسی فوجیوں کے یوکرین میں داخلے کی تصاویر حاصل کرنے کی آس میں خارکیف میں بیٹھے ہمارے ساتھی بھی مایوس ہو چکے تھے لیکن وہ قدرے محفوظ اور مطمئن تھے۔

کیف سے ڈیڑھ سو کلو میٹر فاصلے پر ہم ایک گیس اسٹیشن اور منی مارٹ پر سینڈوچ اور کافی لینے کے لیے رکے۔ ایک روشن کمرے میں اسنیکس، تحائف، امپورٹڈ وائن اور بیئر فروخت ہو رہی تھی۔ وہاں زیادہ بھیڑ نہیں تھی اور لوگ قدرے پُرسکون لگ رہے تھے۔ تین خواتین فوجی اہل کار قریبی باتھ روم سے منہ ہاتھ دھو کر نکلیں تو ہمارے ویڈیو گرافر یان نے اس ہنگامہ خیز دن میں اس ماحول پر یہ تبصرہ کیا کہ ’یہی تو میں دیکھنا چاہتا تھا۔‘

اب کیا ہو گا؟

ہفتوں فوج کی صف بندی کی وجہ سے جاری رہنے والی بے یقینی اور اس ہولناک دن کے بعد شام تک ہماری کچھ سانس بحال ہوتی محسوس ہو رہی تھی۔ لیکن جنگ تو ابھی شروع ہوئی ہے اور اس کا خاتمہ نہ جانے کب ہو۔

گزشتہ چند دنوں سے روس کے بیانات بلند آہنگ تھے اور روسی صدر پوٹن تو یہ تک کہہ چکے تھے کہ فطری اعتبار سے روس اور یوکرین ایک ہی ملک ہیں۔

پوٹن کی اس تقریر سے قبل ہی ہم مقامی افراد سے اس خیال کی تردید پر جارحانہ دلائل سن چکے تھے۔ کیف میں مختلف سماجی و سیاسی کارکنوں نے ہم سے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ روس انہیں ، ان کی زبان اور ان کے کلچر کو مٹانا چاہتا ہے۔ خارکیف میں روسی سرحد کے نزدیک جن خاندانوں سے بات چیت کا موقع ملا تو ان کا کہنا تھا کہ ان کی زبان روسی ہے۔ ان کے رشتے دار روس میں رہتے ہیں اور انہیں اس بات کا بہت زیادہ احساس نہیں کہ ان کے علاقے کا انتظام کس کے ہاتھ میں ہے۔

یہ کہنے کی ضرروت نہیں کہ یوکرین میں سب ایک طرح نہیں سوچتے۔ سرحد کے قریب ایک گاؤں میں کپڑے، گھریلو سازوسامان اور دفتری اشیا فروخت کرنے والی دو خواتین آپس میں بات کرتے ہوئے روس کو ’برادر ملک‘ کہہ رہی تھیں ۔جنگ سے انہیں سب سے بڑا خطرہ یہ تھا کہ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان خلیج مزید بڑھ جائے گی۔ منقسم خاندانوں کے لیے پہلے ہی سرحدیں بند تھیں۔ دونوں ممالک کے درمیان چلنے والی 30 مسافر ریل گاڑیاں 2014 کے بعد سے بند تھیں۔

اقوامِ متحدہ کے اجلاس میں روس اور یوکرین کے نمائندوں کی تکرار
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:42 0:00

اسی دکان کے باہر کھڑے 48 سالہ رومان نامی شہری یہ کہہ رہے تھے کہ اگر بچپن میں درخت سے گرنے کی وجہ سے ان کا ایک بازو ناکارہ نہ ہوتا تو وہ روس کے مقابلے میں یوکرین کا دفاع کرنے کے لیے ضرور لڑتے۔

لیکن رومان کے دو بھائیوں میں سے ایک روس کا حامی تھا جو یوکرین کے اس حصے کو روسی کنٹرول میں دیکھنے کا آرزو مند تھا۔ رومان کا دوسرا بھائی انہی کی طرح یوکرین کی خود مختاری کا حامی تھا۔

رومان ہمیں بتا رہے تھے کہ روس کی حمایت کرنے والے بھائی کے ساتھ ہماری بنتی نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG