رسائی کے لنکس

روس یوکرین تنازع: معاملہ ہے کیا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

روس کے فوجی آپریشن کے اعلان بعد یوکرین میں مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کو مقامی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے خطاب میں یوکرین میں ملٹری آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے دیگر ممالک کو خبردار کیا کہ انہوں نے اگر اس معاملے میں مداخلت کی کوشش کی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔

روس نے گزشتہ برس کے اواخر سے یوکرین کی سرحد پر ڈیڑھ لاکھ سے زائد فوجی تعینات کیے تھے جس کے بعد امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے تواتر کے ساتھ کسی ممکنہ جارحیت کے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا البتہ ماضی میں روس یوکرین پر حملے کے عزائم سے انکار کرتا رہا۔

حالیہ کشیدگی اس وقت اپنے عروج پر پہنچی تھی جب دو روز قبل روس نے یوکرین کے دو علیحدگی پسند علاقوں ڈونسک اور لوہانسک کی آزاد حیثیت تسلیم کی تھی اور وہاں اپنی فوج داخل ہونے کے احکامات جاری کیے تھے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے ان علاقوں میں’امن قائم کرنے‘ کو اس اقدام کا جواز بتایا تھا البتہ امریکہ نے اس جواز کو 'احمقانہ' قرار دیتے ہوئے اسے یوکرین پر حملے کا آغاز قرار دیا تھا۔

یوکرین اور روس کے درمیان جاری حالیہ تنازع کو گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران یورپ میں سلامتی کا سنگین ترین بحران قرار دیا جارہا ہے۔روس کے حالیہ اقدام کے بعد سلامتی کا یہ بحران مزید سنگین ہوگیا ہے البتہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازعات کی تاریخ طویل ہے اور حالیہ بحران کی جڑیں بھی اسی تاریخی تناظر میں پیوست ہیں۔

تاریخی پس منظر

سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل یوکرین روسی سلطنت کا حصہ تھا۔ 1991 میں سوویت یونین کے خاتمہ ہوا تو یوکرین سمیت 14 آزاد ریاستیں قائم ہوئیں۔لیکن یوکرین کو علیحدہ ملک کے طور پر تسلیم کرنا کئی تاریخی اسباب سے روس کے لیے مشکل رہا ہے۔

روس اور یوکرین کے تعلق کی تاریخ نویں صدی سے شروع ہوتی ہے جب کیف قدیم روسی سلطنت کا دار الحکومت بنا تھا اور سن988 میں شہزادہ ولادیمر نے روس کو آرتھوڈکس مسیحیت سے متعارف کرایا تھا۔آج یہی شہر یوکرین کا دارالحکومت ہے۔

سن 1654 میں روس اور یوکرین ایک معاہدے کے تحت زارِ روس کی سلطنت میں متحد ہوگئے تھے اور بعد میں یہ سوویت یونین میں بھی ساتھ رہے۔

اٹلانٹک کونسل کے لیے اپنے ایک مضمون میں سابق سفارت کار بوہڈان وٹوٹسکی نے لکھا تھا کہ سوویت یونین میں شامل ہونے سے قبل روسی سلطنت کے دور ہی سے یوکرین کی علیحدہ شناخت برقرار رکھنے کی کوششوں کو دبایا گیا۔

اس کے لیے یوکرین کی زبان پر بھی کڑی پابندیاں عائد کی گئیں۔

ان کے مطابق 1917 کے انقلاب کے بعد بھی بالشویک فوجوں نے یوکرین پر حملے جاری رکھے اور یوکرین کے علیحدہ ملک بننے والی کسی آواز کو سر نہیں اٹھانے دیا۔

وٹوٹسکی کے بقول یوکرین کی علیحدہ حیثیت کو تسلیم نہ کرنا وہ واحد نکتہ تھا جس پر روس میں انقلاب لانے والے اور ان کی مخالف روسی فوج دونوں یکساں مؤقف رکھتے تھے۔

روس میں انقلاب کے بعد 1920 سے 1930 کے دوران سوویت آمر جوزف اسٹالن نے یوکرین کے علیحدہ ریاست بننے کے امکانات ختم کرنے کے لیے وہاں کے دانشوروں اور کسانوں کے خلاف دہشت گردی کی منظم کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔سوویت دور کے آخری برسوں تک یوکرین کی علیحدہ حیثیت کے حامیوں کے خلاف سخت پالیسیاں نافذ رہیں۔

اس تاریخی پس منظر کی وجہ سے آزادی کے بعد یوکرین نے مغربی ممالک سے اپنے روابط بڑھانا شروع کیے۔

نیٹو نے بھی مشرقی یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے کئی ممالک کو دفاعی اتحاد کا حصہ بنانا شروع کیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین ایک بالادست قوت کے طور پر ابھری تھی۔ اسی لیے سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سوویت یونین کا حصہ رہنے والے یورپی ممالک نے روس کے اثر سے نکلنے کے لیے نیٹو کا رُخ کرنا شروع کیا۔ یوکرین بھی ان ممالک میں شامل تھا۔ لیکن سوویت یونین میں شامل دیگر ممالک کے مقابلے میں یوکرین کی نیٹو میں شمولیت روس کے لیے ایک حساس معاملہ رہا ہے۔

یوکرین کی داخلی سیاست اور روس کے خدشات

یوکرین ایک کمزور معیشت ہے اور اس کی سیاست میں روس کے حامی اور مغربی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی حمایت کرنے والے گروہوں میں کشمکش جاری رہتی ہے۔

روس کی جانب جھکاؤ رکھنے والے یوکرین کے اس وقت کے صدر وکٹور یانوکووچ نے 2014 میں ماسکو سے تعلقات بڑھانے کے لیے یورپی یونین سے منسلک ہونے کا معاہدہ مسترد کر دیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا۔اس احتجاجی لہر کے نتیجے میں یانوکووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔

علاقائی سیاست میں روس نے اسے اپنے لیے پسپائی تصور کیا اور اس کے ردعمل میں 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کردیا۔

کرائمیا پر روس کے قابض ہونے کے بعد علیحدگی پسندوں نے مشرقی یوکرین میں پیش قدمی شروع کر دی۔یوکرین کے مشرقی صنعتی مرکز دونباس میں روس کے کئی حمایت یافتہ علیحدگی پسند گروہ سرگرم ہیں اور وہاں ہونے والی لڑائی میں 14 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوچکی ہیں۔لڑائی میں شدت آنے کے بعد یوکرین کے مقابلے میں علیحدگی پسندوں کو پسپائی ہونے لگی تو روس نے ان کی مدد کے لیے مشرقی یوکرین پر حملہ کر دیا۔

جرمنی اور فرانس کی مصالحت سے 2015 میں یوکرین میں جنگ بندی ہوئی لیکن صورت حال کا کوئی سیاسی تصفیہ نہیں ہوسکا اور وقتاً فوقتاً جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔

گزشتہ برس کے دوران مشرقی یوکرین میں جنگ بندی کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہو گیا اور اس وقت جنگ کے خطرات منڈلانے لگے جب روس نے یوکرین کی سرحد پر بڑی تعداد میں فوج تعینات کر دی۔

روس کے حالیہ اقدامات

گزشتہ برس دسمبر میں امریکہ کے انٹیلی جنس حکام کو معلوم ہوا تھا کہ روس یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد اہلکار تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد پہلے ہی سے یوکرین کی سرحد پر مختلف مقامات ممکنہ حملے کی تیاریوں کے لیے موجود تھے۔

دسمبر میں یوکرین کے وزیرِ دفاع نے تصدیق کی تھی کہ روس کے زیرِ انتظام کرائمیا میں 94ہزار سے زائد روسی فوجی تعینات ہیں۔ انہوں نے رواں برس جنوری میں کسی ممکنہ تصادم کا خدشہ بھی ظاہر کیا تھا۔

روس نے اس بارے میں مؤقف اختیار کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین پر فوج تعینات کررہا ہے جس کی وجہ سے کسی اور کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔

کشیدگی کیوں بڑھی؟

روس یوکرین پر 2015 کی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کے لیے مغربی ممالک کو بھی موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔

اس معاہدے کو روس کی کامیابی قرار دیا جاتا تھا کیوں کہ اس کے ذریعے یوکرین کو باغیوں کے زیر اثر علاقوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کا پابند کیا گیا تھا۔ اس معاہدے میں یوکرین نے علیحدگی پسندوں کے لیے عام معافی کی پیش کش بھی کی تھی۔

یوکرین بھی روس پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔ روس کی تردید کے باجود یوکرین کا اصرار ہے کہ اس کے مشرقی خطے میں روسی فوجی موجود ہیں۔

حالیہ کشیدگی کے بعد روس جرمنی اور فرانس کی شمولیت کے ساتھ مذاکرات کی پیش کش کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔

یوکرین کو ہتھیار فراہم کرنے اور اس کے ساتھ جنگی مشقیں کرنے پر روس امریکہ اور نیٹو کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا ہے۔ روس کا الزام ہے کہ امریکہ اور نیٹو یوکرین کو باغیوں سے وہ علاقے واپس کے لینے کے لیے طاقت کے استعمال پر اکسا رہے ہیں جن کا کنٹرول انہوں نے 2014 میں حاصل کیا تھا۔

یوکرین نیٹو کا رکن نہیں ہے لیکن 2008 سے عندیہ دے رہا ہے کہ وہ جلد اس اتحاد کا حصہ بن جائے گا۔ 2014 میں روس کی حمایت یافتہ حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے یوکرین مغربی ممالک کے قریب ہوا ہے۔ یوکرین نے نیٹو کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں، امریکہ سے ٹینک شکن میزائل اور ترکی سے ڈرون بھی حاصل کیے ہیں۔

کرائمیا کا کنٹرول سنبھالنے اور مشرقی یوکرین میں باغیوں کی مدد کے تناظر میں یوکرین اور امریکہ اپنے بڑھتے ہوئے باہمی تعاون کو درست اقدام قرار دیتے ہیں۔ مبصرین یوکرین کے نیٹو اور امریکہ سے بڑھتے ہوئے تعاون کو بھی روس کے حالیہ اقدامات کا سبب قرار دیتے ہیں۔

پوٹن کیا چاہتے ہیں؟

روس کے صدر پوٹن کو خدشہ ہے کہ مغربی ممالک سے بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ سے یوکرین روس کے خلاف نیٹو کے میزائلز کا لانچ پیڈ بن جائے گا۔صدر پوٹن نے جولائی 2021 میں اپنے ایک مضمون لکھا تھا کہ روس اور یوکرین کے تعلقات کی بات ہوتی ہے ۔میں یہی کہتا ہوں کہ ہم تاریخی طور پر ایک ہی ہیں۔ وہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت کو ریڈ لائن قرار دیتے ہیں۔

رائٹرز کے مطابق پوٹن ایک ایسے لیڈر ہیں جو داخلی سطح پر بھی مخالفت برداشت نہیں کرتے۔ انہیں اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ روس کے پڑوسی ممالک میں انقلاب روس میں احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بیلاروس میں الیگزینڈر لوکاشینکو کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں حکومت کا ساتھ دیا۔ وہ یوکرین کی نیٹو اور یورپی یونین میں شرکت اور وہاں جمہوریت کی مضبوطی کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

بعض مبصرین یوکرین کے معاملے پر صدر پوٹن کی حالیہ مہم جوئی کو ان کے سیاسی مقاصد کا نتیجہ قرار ردیتے ہیں۔یوکرین پر کشیدگی برقرار رکھ کر پوٹن روس میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ روس کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔

رائٹرز کے مطابق گزشتہ برس اپنے ایک انٹرویو میں پوٹن نے کہا تھا کہ سوویت یونین کا خاتمہ ’تاریخی روس‘ کا خاتمہ تھا جو ایک ہزار سال میں تعمیر ہونے والا ورثہ تھا۔

رائٹرز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ پوٹن اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار رکھنے کے لیے یوکرین کو اپنے ’نامکمل ایجنڈے‘ کے طور پر ظاہر کرتے ہیں کیوں کہ کرائمیا پر قابض ہونے کے بعد روس میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا۔

اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG