رسائی کے لنکس

کیا متحدہ عرب امارات ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں آ سکتا ہے؟


ابو ظہبی (فائل فوٹو)
ابو ظہبی (فائل فوٹو)

دنیا بھر میں مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والا عالمی ادارہ اس ہفتے فیصلہ کرے گا کہ متحدہ عرب امارات نے گرے لسٹ میں آنے سےبچنے کے لیے مناسب پیش رفت کی ہے یا نہیں۔ گرے لسٹ میں جانے سے مشرق وسطیٰ کے اس کاروباری مرکز کی ساکھ کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے دو ہزار بیس میں خطے کے مالیاتی دارالحکومت اور سونے کے تجارتی مرکز متحدہ عرب امارات سے اس کے مالیاتی نظام میں بنیادی اور نمایاں بہتری کا مطالبہ کیا تھا ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گرے لسٹ میں شامل ممالک کو ایف اے ٹی ایف کی اضافی نگرانی، ساکھ کو نقصان پہنچنے ، عالمی درجہ بندی ،دنیا بھر سے سرمائے کے حصول میں دشواری اورمالیاتی لین دین میں زیادہ اخراجات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت احمد الصیغ نے خبررساں ادارے رائٹرز کو بتایا کہ بینک ، رئیل اسٹیٹ اور کریڈٹ ریٹنگ جیسے شعبوں میں ممکنہ گرے لسٹ سے خطرہ کم ہے۔ انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات کی معیشت لچکدار اور متنوع ہے۔ " ہم متحدہ عرب امارات میں کاروبار کرنے والے سرمایہ کاروں ، مالیاتی اداروں اور فرموں کے ساتھ ایک فعال بات چیت میں مصروف ہیں، تاکہ تمام ممکنہ صورتحال کا اندازہ لگایا جاسکے اور نگرانی میں اضافے کے نتیجے میں کسی بھی قسم کے نتائج کے اثرات کو کم کیا جاسکے۔

پیرس میں قائم ایف اے ٹی ایف چار مارچ کو اپنی تازہ ترین فہرست جاری کرے گا۔

بیکر اینڈ میکنزی انٹرنیشنل کے رکن حبیب الملا اینڈ پارٹنر ز کے مازن بوستانی نے کہا کہ گرے لسٹ خودمختار اور مقامی بینکوں کی درجہ بندیوں اور متحدہ عرب امارات کے پراپرٹی سیکڑ کو متاثر کرسکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات اس فہرست میں شامل کیا گیا تو وہ اس سے جلد از جلد باہر آنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گا۔

درجہ بندی کرنے والی ایجنسیوں ایس اینڈ پی اور فیچ نے براہ راست اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آیا متحدہ عرب امارات کے گرے لسٹ میں آنے سے اس کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی آئے گی؟

ایس اینڈ پی گلوبل ریٹنگز کے محمد دمک نے کہا کہ ان کی کمپنی بینک کی صنعت میں خدشات کا تخمینہ لگاتے ہوئے ضابطے اور اس کی نگرانی کو مدنظر رکھتی ہے۔انھوں نے رائٹرز کو بتایا کہ ہم بھی جب کوئی کمزوری دیکھتے ہیں تو اس کا احتساب کرتے ہیں۔

گرے لسٹ میں شامل ملکوں کے ساتھ مالیاتی لین دین کی لاگت ، اضافی جانچ اور عملدرآمد کی ضرورت کی وجہ سے زیادہ ہو سکتی ہے اور یہ سرحدوں کے آر پار بینک فنڈنگ کی لاگت کی وجہ سے بھی بڑھ سکتی ہے۔

ملیکت کی شفافیت :

جب ایف اے ٹی ایف نے مالٹا کو گرے لسٹ میں ڈالا تھا تو فیچ نے یہ کہتے ہوئے کہ کسی بھی کریڈٹ کے اثر کاتخمینہ لگانے میں حکام کا ردعمل اہم ہوگا، اس کی خودمختار ی اور بینک کی درجہ بندی میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔

تیل اورگیس برآمد کرنےوالے ملک یو اے ای نے، جو کھلے کاروباراور پرتعیش طرز زندگی کے مواقع پیش کرتا ہے، اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ایف اے ٹی ایف کے معیارات پر عملدرآمد کے لیے کچھ فنی نوعیت کی اصلاحات متعارف کروائی ہیں لیکن اس وفاق کی ساتوں ریاستوں میں بھی ان اصلاحات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا جائے گا۔

اماراتی وزیر الصیغ نے کہا کہ "مجھے یقین ہے کہ ہم ایف اے ٹی ایف کے دیے ہوئے فیڈ بیک کے کسی بھی ممکنہ پہلوؤں کو فوری اور موثر طریقے سے حل کرنے کی پوزیشن میں ہیں ۔"

متحدہ عرب امارات کا پراپرٹی سیکٹر، خاص طور پر دبئی کا سیکٹر ، غیر ملکی پیسے سے چلتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کی دو ہزار بیس کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ متحدہ عرب امارات نے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس ، قیمتی پتھروں اور دھاتوں کے ڈیلرز کی موثر نگرانی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

متحدہ عرب امارات نے سال دو ہزار اٹھارہ میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے خلاف قانون منظور کرنے کے بعد اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے لیے ایک ایگزیکٹو آفس قائم کیا تھا۔جس نے اربوں ڈالر کی تجارت کے لیے مقررہ معیار کو مزید سخت کردیا ہے اور ملکیت کی شفافیت کو بہتر بنانے کی کوشش کی ہے۔

ایف اے ٹی ایف کے جائزے کے بعد کی کارکردگی کو اجاگر کرتے ہوئے اماراتی وزیر نے کہا کہ دو ہزار اکیس میں منی لانڈرنگ اور سونے او ر قیمتی دھاتوں کے شعبے میں چھ سو پچیس ملین ڈالر کے اثاثے ضبط کیے گئے۔منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق تعاون کی بین الااقوامی درخواستوں پر عملدرآمد میں لگنے والااوسط وقت دو ہزار اکیس میں سینتیس دن رہ گیا جب کہ دو ہزار انیس میں یہ ایک سو انتالیس دن تھا۔

اماراتی وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زاید نے اس ماہ فوربز مڈل ایسٹ میگزین میں لکھا کہ " غیر قانونی مالیات متحدہ عرب امارات کی بین الااقوامی ساکھ اور ہمارے عالمی مالیاتی شعبے کی سالمیت کے لیے خطرہ ہیں۔ ہم پہلے ہی مضبوط پیش رفت کررہے ہیں۔ زیادہ موثر معلومات کا تبادلہ اس کی کلید ہے۔"

(خبر کا مواد خبررساں ادارے رائٹرز سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG