پاکستان میں سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے سدِ باب کے لیے متعارف کرائے گئے پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) کے خلاف صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں۔ وزیرِ اعظم عمران خان اس قانون کو ہر صورت لاگو کرنے پر اصرار کر رہے ہیں جب کہ اپوزیشن جماعتوں نے پارلیمنٹ کے اندر اس پر آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کی حزبِ اختلاف نے میڈیا کے حوالے سے پیکا قانون کو منسوخ کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد لانے کا بھی اعلان کیا ہے۔
پیر کی شام وزیرِ اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں پیکا ترمیمی قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قانون ملک کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان کی حزبِ اختلاف اور صحافتی تنظیموں نے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے پیکا ترمیمی قانون کا دفاع کرنے پر تنقید کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے بھی حکومت کی جانب سے الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے قانون میں ترامیم کو آزادی اظہار کو دبانے کی منظم مہم کا حصہ قرار دیا ہے۔
منگل کو پیکا ترمیمی قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کا نفاذ اکثر ناقدین کے خلاف کیا جاتا ہے۔
اپنے ریمارکس میں ان کا کہنا تھا کہ ہتک عزت کا قانون پیکا سے الگ بھی موجود ہے۔ اطہر من اللہ نے کہا کہ گزشتہ روز وزیر اعظم کے خطاب سے ایسا لگتا ہے وزیر اعظم کی پیکا قانون کے حوالے سے کسی نے ٹھیک سے معاونت نہیں کی۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ پیکا ترمیمی آرڈیننس کی منسوخی کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ریکوزیشن جمع کرائی جا رہی ہے۔
قواعدکے مطابق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس اگر کسی صدارتی حکم نامے کو منسوخ کرنے کی قرارداد منظور کرلیتا ہے تو وہ قانون منسوخ ہوجاتا ہے۔
میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے ملاقات میں شہباز شریف نے صحافتی تنظیموں کی جانب سے اس متنازع قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے فیصلے کی حمایت بھی کی۔
پیپلز پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے وزیرِاعظم عمران خان کے پیکا قانون سے متعلق بیان کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس متنازع قانون کو پارلیمنٹ میں مسترد کیا جائے گا۔
شیری رحمنٰ نے کہا کہ اگر قانون میں کوئی خرابی نہیں تو اسے پارلیمان میں پیش کیوں نہیں کیا گیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان نےپیر کی شب قوم سے خطاب کے دوران کہا تھا کہ پیکا قانون کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے خلاف جو گند اچھالا جارہا ہے اس کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے کے پاس ہزاروں کیسز پڑے ہوئے ہیں لیکن عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کی عدالتوں میں انصاف نہیں ملتا اور مراد سعید بھی برطانیہ کی عدالتوں میں جانے کا سوچ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’آج میڈیا پر 70 فی صد خبریں ہمارے خلاف ہیں لیکن اس سے ہمیں فرق نہیں پڑتا"۔
صحافیوں کی ملک گیر تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یوجے) کے صدر شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کو اب یہ ادراک ہو جانا چاہیے کہ صحافی تنظیمیں, عدالتیں اور سیاسی جماعتیں اس قانون کو مسترد کر چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ایف یوجے نے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے اور عدالت نے اس پر عمل درآمد روکنے کے احکامات دے رکھے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالتوں، سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی جانب سے اس قانون کی مخالفت کی گئی ہے جو کہ بہت حوصلہ افزا بات ہے۔
شہزادہ ذولفقار نے بتایا کہ پی ایف یوجے نے پیر کو سیاہ منایا اور آئندہ قومی اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کو یہ قانون کسی صورت قبول نہیں اور اس کی منسوخی تک احتجاج کرتے رہیں گے۔
میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے میاں طاہر کہتے ہیں کہ پیکا قانون صحافت کی آواز دبانے کے لیے ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کا تسلسل اور اس سلسلے میں ایک بدترین اقدام ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وزیرِ اعظم عمران خان نے گزشتہ شب پیکا قانون کا دفاع کرتے ہوئے بغیر ثبوت پیش کیے صحافیوں پر الزام لگایا جس پر ان کے خلاف اسی قانون کے تحت مقدمہ بنایا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اظہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ ہتکِ عزت کا قانون تو پہلے سے موجود ہے تو پیکا قانون میں ایسی ترامیم لانے کا کیا مقصد ہے۔
میاں طاہر کہتے ہیں کہ میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے فیک نیوز کی تشریح دی تھی جس سے حکومت نے اتفاق کیا تاہم ان مذاکرات اور تجاویز کو نظرانداز کرتے ہوئے اچانک آرڈیننس جاری کر دیا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ فیک نیوز کی تشریح کیے بغیر ہی حکومت جلد بازی میں یہ قانون لائی ہے جسے واپس لینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ صحافتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کو مسترد کر چکی ہیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی اس کو پارلیمنٹ میں منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
خیال رہے کہ حکومت کی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے پیکا قانون کی حمایت نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جب کہ مسلم لیگ (ق) نے بھی اس قانون پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔