''مجھے کراچی میں قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے گرفتار کر لیا تھا۔ مجھے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ مجھے کہاں رکھا گیا ہے۔ میرے ہاتھ اور پاؤں زنجیروں سے بندھے تھے۔ ایک دن تفتیش کار آئے اور کہنے لگے کہ آج سے تحقیقات کا رُخ تبدیل ہو گیا ہے۔ میں نے پوچھا کیوں؟۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک طیارہ اغوا ہو گیا ہے، آپ اس سلسلے میں کیا مدد کر سکتے ہیں؟۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے تو یکم جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا اور آج آپ بتا رہے کہ دو مارچ ہے، مجھے تو اس بارے میں کچھ نہیں پتا۔ پھر انہوں نے بتایا کہ اغوا کاروں نے جن قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ان میں آپ کا نام بھی شامل ہے۔''
یہ کہنا ہے پاکستان پیپلزپارٹی(پی پی پی) کے سابق سینیٹر مسرور احسن کا جو دو مارچ 1981 کو کراچی سے پشاور جانے والی پرواز کی ہائی جیکنگ کے نتیجے میں رہا ہوئے تھے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز(پی آئی اے) کی پرواز 'پی کے 326' میں عملے کے پانچ افراد سمیت ملکی ا و رغیر ملکی مسافر سوار تھے۔ یہ پرواز جب صوبۂ پنجاب کے علاقے میانوالی سے گزر رہی ہوتی ہے تو تین نوجوان اپنی نشستوں سے اٹھتے ہیں اور اسلحے کے زور پر پرواز کے پائلٹ کو طیارے کا رُخ افغانستان کے دارالحکومت کابل کی طرف موڑنے کا کہتے ہیں اور دو مارچ شام پانچ بجے طیارہ کابل کے ایئر پورٹ پر اتار لیا جاتا ہے۔
طیارے کو ہائی جیک کرنے والے تین ہائی جیکرز سلام اللہ ٹیپو، ناصر جمال اور ارشد شیرازی پاکستان کی مختلف جیلوں سے54 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں جن کا تعلق الذوالفقار اور پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے تھا۔
خیال رہے کہ الذوالفقار کی بنیاد ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹوں مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو نے 1979 میں ضیاالحق کے ہاتھوں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے اور انہیں پھانسی دیے جانے کے بعد رکھی تھی۔
مسرور احسن کے مطابق تفتیش کار ان سے اغوا کاروں کے بارے میں پوچھتے رہے جب کہ انہیں اس وقت اس سارے معاملے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا۔
حکومتِ پاکستان کے ساتھ مذاکرات اور کیپٹن طارق رحیم کا قتل
پاکستان میں اس وقت برسرِ اقتدار صدر ضیاالحق کی حکومت کے نمائندوں اور اغواکاروں کے درمیان قیدیوں کی رہائی سے متعلق تین دنوں تک مذاکرات جاری رہے جو کہ بے سود ثابت ہوئے۔
مذاکرات کے دوران طیارے پر سوار کیپٹن طارق رحیم،جنہیں اغوا کار جنرل رحیم الدین کا بیٹا سمجھے، انہیں قتل کردیا گیا جس کے بعد ضیاالحق کی حکومت مطالبات ماننے پر مجبور ہوئی۔
طیارے کی دمشق کے لیےاڑان اور رہا ہونے والے قیدیوں کی روانگی
کابل میں کسی ممکنہ آپریشن کے پیش نظر اغوا کار سات مارچ کو طیارہ شام کے دارالحکومت دمشق لے گئے۔جس کے بعدپاکستانی حکومت نے اغواکاروں کی بات مانی اور 12 مارچ کو طیارے کے مسافروں کے بدلے 54 قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا۔
ان قیدیوں کوپاکستان پیپلزپارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور بھٹو کی پھانسی کے بعد کیے جانے والے احتجاج میں شرکت پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ان قیدیوں کو خصوصی طیارے کے ذریعے 15 مارچ کو دمشق پہنچا یا گیا جہاں وہ 25 روز تک ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پذیر رہے۔ جس کا خرچہ مسرور احسن کے بقول اس وقت کے شامی صدر حافظ الاسد نے اٹھایا۔
اس طیارہ ہائی جیکنگ کے نتیجے میں جن افراد کو رہا کیا گیا ان میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر غلام حسین، سابق قائم مقام وزیراعظم معراج خالد، میا ں محمود علی قصوری، سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر، طالب علم رہنما آصف بٹ اور سابق وفاقی وزیر سید اقبال حیدر بھی شامل تھے۔
دمشق پہنچنے والے 54 قیدیوں میں سے 28 نے الذوالفقار کے ساتھ ضیاالحق کے خلاف عسکری جدوجہد کا فیصلہ کیا جب کہ باقی افراد نے یورپی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرلی۔
ضیاالحق کے خلاف جدوجہد کا آغاز
ان 28 افراد میں سے ایک آصف بٹ تھے جو لاہور کے کوٹ لکھپت جیل سے رہا ہو کر دمشق پہنچے تھے۔
وہ اپنی کتاب "کئی سولیاں سرِ راہ تھیں" میں کابل کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ میر مرتضیٰ نے انہیں بتایا کہ "ان کی اطلاع کے مطابق سوائے مراعات و مفادات یافتہ چند جرنیلوں کے باقی ساری فوج قائدِ عوام (ذوالفقار علی بھٹو) کے ساتھ کیے گئے ظلم اور جمہوریت کو ختم کر کے آمریت کے قیام کے عمل کے خلاف ہیں۔ پھر بھی از خود فوج کے اندر سے بغاوت کے آثار نظر نہیں آتے ۔بہت سے جرنیل ضیاالحق اور ان کے چند جرنیلوں سے اسی طرح نالاں ہیں جیسے ہم اور پاکستان کے عوام۔ لیکن اگر ہم نے فوج کو راستہ لے کر نہ دیا تو ضیاالحق کا تاریک دور طوالت اختیار کر جائے گا لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ضیاالحق کو ختم کر دیا جائے۔ ہمارے نزدیک اس کام کے لیے آپ تینوں (آصف بٹ سمیت ارشد اور اعظم ، جوہائی جیکنگ کے نتیجے میں رہا ہوئے تھے) مناسب ترین ہو۔ اب آپ بولو کہ آپ تینوں تیار ہو؟"۔''
آصف بٹ آگے لکھتے ہیں کہ "ان کے لیے اس گفتگو میں کوئی خبر نہ تھی کہ وہ چونکتے۔ انہیں سو فیصد یقین تھا کہ ضیاالحق پر حملہ کرنے کی ذمہ داری ان پر عائد کی جا رہی ہے"۔''
سام سکس کا استعمال اور ضیاالحق پر حملے کا منصوبہ
آصف بٹ کے مطابق انہوں نے کابل سے راولپنڈی آ کر سارا ہوم ورک کر لیا تھا کہ اگر ضیاالحق اسلام آباد سے لاہور کی فلائٹ میں ہوں تو کس جگہ سے اور اگر کراچی جا رہے ہوں تو کس جگہ سے سام سکس میزائل کے ذریعے حملہ کیا جا سکتا ہے۔
تاہم آصف بٹ کہتے ہیں کہ جب ساری منصوبہ بندی کے بعد وہ ضیاالحق پر حملہ کرنے کے لیے اپنے دو ساتھیوں ارشد اور اعظم کو لینے کابل جا رہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر مسرور احسن کو 1986 میں پاکستان کی سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی جلا وطنی سے قبل رہا کیا گیا جب کہ آصف بٹ کو پیپلزپارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد رہائی ملی۔
ہائی جیکنگ کا مقصد
مسرور احسن کے مطابق اس ہائی جیکنگ کا مقصد پاکستان کی مختلف جیلوں میں قید ان قیدیوں کی رہائی تھی جن کی زندگیوں کو خطرات لاحق تھے۔
سابق سینیٹر کا کہنا تھا کہ اس ہائی جیکنگ کے بدلے رہا کرائے گئے قیدیوں کی رہائی کا مقصد یہ تھا کہ وہ ضیاالحق کے خلاف جاری جدوجہد میں الذوالفقار کا ساتھ دیں۔
لندن میں مقیم سینئر صحافی شاہد خان کے پاس دستیاب ایک ویڈیو کے مطابق ہائی جیکنگ کے مرکزی کردار سلام اللہ ٹیپو کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ "ہم بھٹوازم کے لیے لڑ رہے ہیں"۔''
بھٹو کا انتقام
پاکستان کے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی سے قبل یہ کہا تھا کہ انہیں قتل کیا گیا تو ان کے بیٹے ان کا انتقام لیں گے۔
اس پر مسرور احسن کا کہنا تھا کہ بھٹو کے انتقام کا مطلب یہ ہر گز نہیں تھا کہ بھٹو کی پھانسی کا روایتی انتقام لیا جائے گا۔ ان کے بقول بھٹو بہت بڑے فلسفی تھے اور ان کا یہ کہنے کا مقصد یہ تھا کہ پورا نظام تبدیل ہو، نہ کہ کسی کی ذات سے انتقام لیا جائے۔
اغوا کار کہاں ہیں؟
طیارہ ہائی جیک کرنے والے تین اغواکاروں میں سے سلام اللہ ٹیپو افغانستان میں مارا گیا ہے۔ صحافی شاہد خان کے مطابق سلام اللہ ٹیپو کو افغانستان کے ایک قبیلے شنواری کے ایک رکن کو قتل کرنے کے بدلے ہلاک کر دیا گیا تھا۔
علاوہ ازیں ناصر جمال اور ارشد شیرازی کئی برسوں تک لیبیا میں قید رہنے کے بعد یورپ منتقل ہوگئے اور دو یورپی ممالک میں سیاسی پناہ حاصل کرچکے ہیں۔
وائس آف امریکہ نے لندن میں مقیم سینئر صحافی شاہد خان کے ذریعے ناصر جمال اور ارشد شیرازی سے رابطہ کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس واقعہ کو اتنے سال گزر جانے کے بعد بین الاقوامی قوانین اور کراچی میں رہائش پذیر ان کے خاندانوں کا تحفظ انہیں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
خیال رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اس ہائی جیکنگ کی مذمت کرتی رہی ہے جب کہ مبصرین کا ماننا ہے کہ طیارہ ہائی جیکنگ سے پیپلز پارٹی کو شدید نقصان پہنچا۔