پاکستان کے صوبے پنجاب کی کابینہ نے مسلم فیملی قوانین میں ترمیم کر کے نکاح نامے میں ختم نبوت کا کالم شامل کرنے کی منظوری دے دی ہے جس پر پاکستان میں احمدی کمیونٹی نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔
حلف نامے میں نکاح کے وقت دلہا، دلہن کو واضح کرنا ہو گا کہ وہ ختم نبوت پر یقین رکھتے ہیں یا نہیں۔
گزشتہ برس 26 اکتوبر کو حکمراں جماعت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کی رُکن پنجاب اسمبلی نے اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں ایک قرارداد جمع کرائی تھی جسے بعدازاں منظور کرلیا گیا تھا۔
پاکستان میں بعض طبقات ایسی قانون سازی کا خیرمقدم کرتے ہیں، تاہم ملک میں بسنے والی اقلیتیں اور احمدی کمیونٹی کے افراد ایسی قانون سازی پر تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
'قادیانی پہلے ہی الگ نکاح نامہ استعمال کرتے ہیں'
پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے رہنما عامر محمود سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام یا قانون سازی جو مذہبی بنیادوں پر کی جائے اس سے معاشرہ تقسیم ہوتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عامر محمود نے کہا کہ پنجاب کابینہ کی جانب سے مجوزہ ترمیم کی منظوری سے براہِ راست تو احمدی یا قادیانی طبقہ متاثر نہیں ہو گا لیکن مستقبل میں اِس کے اثرات ضرور آئیں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ احمدی براداری مسلم فیملی لاز کے تحت استعمال ہونے والا نکاح نامہ استعمال نہیں کرتی۔ اُن کا تو پہلے ہی سے الگ نکاح نامہ ہے۔
انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی چیئر پرسن اور ماہرِ قانون حنا جیلانی کہتی ہیں کہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکمران ملک کو کس طرف لے جانا چاہتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حنا جیلانی نے کہا کہ اِس طرح کی قانون سازی غیر ضروری ہے۔ نکاح کے وقت مذہب کا حلف نامہ دینے کی ضرورت سمجھ سے بالا تر ہے۔
حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ اِس طرح کی قانونی سازی اور حکومتی اقدامات سے معاشرے میں نہ صرف تقسیم بڑھے گی بلکہ دیگر مسائل بھی پیدا ہوں گے۔
حنا جیلانی کہتی ہیں کہ جس صوبے کی اسمبلی میں یہ قرارداد آئی تھی اس صوبے میں غربت، بے روزگاری، خواتین اور بچوں کے خلاف مظالم، تعلیم اور صحت کے مسائل پر توجہ دینا زیادہ ضروری ہے۔ لیکن یہاں ایسی قانون سازی پر توجہ دی جا رہی ہے جس سے معاشرہ مزید تقسیم ہو سکتا ہے۔
'شادی کے بعد مسائل سے بچنے کے لیے کالم شامل کیا گیا'
وزیرِاعظم کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی علامہ حافظ طاہر اشرفی کہتے ہیں کہ صوبۂ پنجاب میں سینکڑوں ایسے واقعات سامنے آئے ہیں۔ جن میں مسلمان بچیوں کی شادیاں قادیانی کے ساتھ ہو جاتی ہیں جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں جب حقیقت سامنے آتی ہے اور بچے بھی ہوجاتے ہیں تو پھر پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔
اُن کے بقول اس نوعیت کے کیسز پنجاب میں مسلسل سامنے آ رہے تھے کیوں کہ احمدی کمیونٹی کی اکثریت یہاں آباد ہے۔ لہذٰا نکاح کے وقت ہی یہ مسئلہ حل ہو جائے تو آگے کی پیچیدگیوں سے بچا جا سکتا ہے۔
البتہ احمدی کمیونٹی کے رہنما عامر محمود طاہر اشرفی سے اتفاق نہیں کرتے۔
اُن کے بقول شادی سے قبل ہی یہ چھان پھٹک کر لی جاتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی کا عقیدہ کیا ہے اور یہ جاننا کوئی اتنا مشکل نہیں ہوتا۔
عامر محمود کہتے ہیں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تعلیمی اداروں، قومی شناختی کارڈ اور دیگر قانونی اور سرکاری دستاویزات میں بتدریج ایسے حلف نامے متعارف کرا کر ایک کمیونٹی کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے۔
حنا جیلانی سمجھتی ہیں کہ ایسے اقدامات سے ہی ملک میں انتہا پسندی بڑھتی ہے اور آئے روز معاشرے میں ہونے والے تشدد کے واقعات اس کے عکاس ہیں۔
البتہ حافظ طاہر اشرفی ان اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے تھے کہ اس قانون سازی کا مقصد کسی خاص کمیونٹی کا نشانہ بنانا نہیں ہے بلکہ نکاح کے بعد پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کا تدارک کرنا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی قرارداد کا متن کیا تھا؟
پنجاب اسمبلی میں گزشتہ برس پیش کی جانے والی قرار داد کے متن میں کہا گیا تھا کہ ختم نبوت پر ایمان ثابت کرنے کے لیے نادرا اور پاسپورٹ فارم میں درج حلف نامے کی طرز پر نکاح نامے میں بھی ختم نبوت کا کالم شامل کیا جائے۔
خیال رہے اِس قرارداد کو متفقہ طور پر پنجاب اسمبلی کے ایوان نے منظور کر لیا تھا۔ خدیجہ عمر خواتین کی مخصوص نشستوں پر پاکستان مسلم لیگ قائداعظم کی رکنِ پنجاب اسمبلی ہیں۔ وائس آف امریکہ سے اِس سلسلے میں خدیجہ عمر سے رابطہ کیا تو وہ دستیاب نہیں ہو سکیں۔
واضح رہے کسی بھی قانون میں ترمیم یا نیا قانون بنانے کے لیے ابتدائی طور پر قرارداد اسمبلی میں منظور کی جاتی ہے۔ جس کے بعد پنجاب کابینہ اُس کی منظوری دیتی ہے۔ منظوری دیے جانے کا بعد قانون کا مسودہ اسمبلی میں پیش کیا جاتا ہے۔ مسودے کی منظوری کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جاتا ہے۔
اِس سے قبل پنجاب اسمبلی گزشتہ برس سرکاری دفاتر اور شہر کے داخلی راستوں پر مذہبی کلمات لکھنے کی قرارداد بھی منظور کر چکی ہے۔ پنجاب اسمبلی نے گزشتہ برس ’تحفظِ بنیادِ اسلام‘ بل بھی منظور کیا تھا۔