امریکی خفیہ اداروں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ روسی جارحیت کے باعث یوکرین کے لیے آنے والے دن 'بھیانک' ہو سکتے ہیں۔
امریکی انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ روس پر عائد کی گئی عالمی پابندیوں اور یوکرین میں مطلوبہ نتائج کے حصول میں تاحال ناکامی سے صدر پوٹن کیف کے خلاف جنگ میں طاقت کا اندھا دھند استعمال کر سکتے ہیں۔
سالانہ تھریٹ اسسمنٹ رپورٹ پر منگل کو کانگریس میں سماعت ہوئی جس میں امریکی انٹیلی جنس افسران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انٹیلی جنس حکام نے خبردار کیا کہ روسی حملے کے خلاف شدید اور مؤثر مزاحمت کے باوجود یوکرین کے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انٹیلی جنس حکام نے کہا کہ یوکرین کے دارالحکومت کیف میں 10 دنوں میں خوراک اور پانی ختم ہو سکتا ہے۔
سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنس نے سماعت کے دوران کہا کہ 'اگلے چند ہفتے بہت برے ہوں گے۔ کیوں کہ پوٹن شہری ہلاکتوں کی پرواہ کیے بغیر حملوں کو تیز کر سکتے ہیں۔"
برنس نے خبردار کیا کہ پوٹن کئی برسوں سے کچھ کر گزرنے کے لیے حیلے بہانے تلاش کر رہے تھے۔ اب اُنہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پوٹن یوکرین پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہیں، تاکہ اس کی سمت تبدیل کی جاسکے۔
امریکی خفیہ اداروں ک طرح امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگان) کے حکام بھی کئی روز سے روسی افواج سے لے کر صدر پوٹن تک پھیلتی مایوسی کی نشان دہی کر چکے ہیں جو یہ توقع کر رہے تھے کہ کیف پر زیادہ سے زیادہ دو روز میں قبضہ کر لیا جائے گا۔
اس کے برعکس نہ صرف روسی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا ہے تو وہیں اب تک دو سے چار ہزار روسی فوجی مارے جا چکے ہیں۔ امریکی حکام کے بقول یہ سب روس کی ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔
نیشنل انٹیلی جنس کی ڈائریکٹر ایورل ہینز نے قانون سازوں کا بتایا کہ "روس کو یوکرین کی جانب سے غیر معمولی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی اُنہیں بالکل بھی توقع نہیں تھی جب کہ اُن کی فوجی حکمتِ عملی میں بھی کئی نقائص سامنے آئے ہیں۔"
اُن کے بقول اس ساری صورتِ حال کے باوجود ایسے کوئی امکانات نہیں ہیں کہ پوٹن پیچھے ہٹیں گے۔
ہینز کا کہنا تھا کہ پوٹن سمجھتے ہیں کہ وہ یہ جنگ ہارنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
امریکی انٹیلی جنس حکام کا کہنا تھا کہ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ روس پورے یوکرین پر قبضے کا خواہاں ہے یا نہیں، کیوں کہ اس کے لیے بہت سے وسائل درکار ہوں گے اور وہ بھی ایسے موقع پر جب وہاں فوج کی گرفت کمزور پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہینز نے متنبہ کیا کہ یہ بھی واضح نہیں ہے کہ یوکرین پر زیادہ وسائل خرچ کرنے سے پوٹن اپنی منشا کے مطابق نتیجہ حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔انہوں نے پیش گوئی کرتے ہوئے کہا کہ اگر روس یوکرین کی حکومت کو گرانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو پھر بھی روسی افواج کو مسلسل داخلی شورش کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یوکرین میں بار بار ناکامیوں کے باوجود امریکی انٹیلی جنس حکام نے قانون سازوں کو بتایا کہ پوٹن کو 'احمق' سمجھنا اب بھی ایک غلطی ہو گی۔
ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر لیفٹننٹ جنرل اسکاٹ برنیئر نے کہا کہ پوٹن جو بھی کہتے ہیں ہمیں انتہائی توجہ سے اُن کی بات سننی چاہیے کیوں کہ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ اور نیٹو ممالک کے مقابلے میں جوہری برتری رکھتے ہیں۔
جب امریکی قانون سازوں نے انٹیلی جنس حکام سے پوٹن کے روس کی جوہری فورس کو ہائی الرٹ رکھنے کے متعلق پوچھا تو حکام نے کہا کہ یہ اقدام انتہائی غیر معمولی اتھا۔
البتہ انٹیلی جنس حکام کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ابھی تک روس کی جوہری فورس کی نقل و حرکت نہیں دیکھی۔
روس چین تعلقات
یوکرین جنگ کے چین اور روس کے تعلقات کے حوالے سے امریکی انٹیلی جنس حکام نے کہا کہ یوکرین میں روس کی جنگ کا چین کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑ رہا ہے۔
انٹیلی جنس کے جائزوں نے بار بار ماسکو اور بیجنگ کے درمیان قریبی تعلقات کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ انٹیلی جنس کے مطابق امریکہ اور مغرب کے خلاف متحدہ ہونے سے روس اور چین کو فوائد نظر آتے ہیں۔
لیکن پوٹن کے ساتھ بیجنگ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونا شروع ہو سکتا ہے۔
برنس نے قانون سازوں کو بتایا کہ "میرے خیال میں صدر شی اور چینی قیادت یوکرین میں جو کچھ دیکھ رہے ہیں اس سے قدرے پریشان ہیں۔"
چین سے خطرات
منگل کی سماعت میں اگرچہ روس اور یوکرین پر توجہ مرکوز رہی، امریکی انٹیلی جنس حکام نے واضح کیا کہ امریکہ کے لیے سب سے بڑا خطرہ چین کی کمیونسٹ پارٹی ہے۔
اس سلسلے میں ہینز نے کہا کہ چین انٹیلی جنس کمیونٹی کے لیے اب بھی ترجیح ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیجنگ "قومی سلامتی سے متعلقہ شعبوں میں حریف بننے کے قریب آ رہا ہے اور وہ اپنے فائدے کی خاطر عالمی اصولوں اور اداروں کو ڈھالنا چاہتا ہے۔
دہشت گردی
ان خدشات کے باوجود کہ داعش اور القاعدہ افغانستان میں طالبان کے زیر اثر پروان چڑھ سکتے ہیں، انٹیلی جنس حکام اب زیادہ محدود خطرہ دیکھ رہے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القاعدہ کے سینئر رہنماؤں کی افغانستان میں آپریشنل موجودگی کا فقدان ہے، اور اس گروپ کا اوربرصغیر پاک و ہند میں اس کا باب القاعدہ کمزور ہے۔
رپورٹ کے مطابق فنڈز کی دستیابی اور جیلوں سے بھاگ نکلنے والے افراد کو استعمال کرکے ، داعش طالبان کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
رپورٹ میں تائیوان، ایران اور شمالی کوریا کے حوالے سے خطرات کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔