اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوان کی دعوت پر ترکی کا دورہ کررہے ہیں۔ یہ 2007 کے بعد اسرائیل کے کسی سربراہِ مملکت کا پہلا دورۂ ترکی ہے جسے دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کی بحالی میں پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
صدر آئزک ہرزوگ ایک ایسے وقت میں استنبول اور انقرہ کا دورہ کررہے ہیں جب گزشتہ ماہ یوکرین پر روس کے حملے کے بعد اسرائیل اور ترکی دونوں ہی اس جنگ میں مصالحت کی کوششیں کر رہے ہیں۔
خبررساں اداراے ’اے ایف پی‘ کے مطابق دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں یوکرین کی صورتِ حال زیر بحث آنے کی توقع ہے۔ البتہ غالب امکان ہے کہ گزشتہ دہائیوں میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہنے والے دوطرفہ تعلقات اس دورے کا محور رہیں گے۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اس وقت سردمہری آ گئی تھی جب 2010 میں غزہ کی پٹی پر عائد پابندیوں کے خلاف ترکی نے اپنے ماوی مرمرہ بحری جہاز روانہ کیا تھا۔ یہ جہاز امدادی سامان اور امدادی کارکن لے جانے والے اس بحری جہازوں کے بیڑ ے کی قیادت کر رہا تھا جسے’فریڈم فلوٹیلا‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز نے اس امدادی بیڑے کے خلاف کارروائی کی تھی جس میں10 ترک کارکن ہلاک ہوئے تھے۔
اس واقعے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کم ترین سطح پر چلے گئے تھے۔ لیکن 2011 میں اقوامِ متحدہ نے ترکی کے امدادی بیڑے پر اسرائیل کی کارروائی سے متعلق رپورٹ جاری کی تو ترکی نے اسرائیل کو سفیر کو ملک سے نکال دیا۔
موجودہ حالات میں اسرئیل کے صدر کی دورۂ ترکی کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات کی مختصر تاریخ کے اہم واقعات کا جائزہ مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
تعلقات میں اتار چڑھاؤ
ترکی وہ پہلا مسلم اکثریتی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا۔ ترکی کے اس اقدام کو ابتدا میں واشنگٹن سے قربت حاصل کرکے نیٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا گیا تھا۔
امریکہ کے فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ویب سائٹ پر محقق ڈنکین رنڈل کے شائع ہونے والے حالیہ مضمون کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ انقرہ اور تل ابیب دونوں کو اندازہ ہو گیا کہ بہتر تعلقات سے دو طرفہ مفادات وابستہ ہیں۔
ڈنکین رنڈل کے مطابق اس کے بعد دونوں ممالک نے ایک دوسری کی عسکری اور انٹیلی جنس صلاحیتوں سے بھی استفادہ کیا۔ 1958 میں جب مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے شام کو ساتھ ملا کر متحدہ جمہوریہ عرب کی بنیاد رکھی تو دونوں ممالک کے تعاون میں مزید اضافہ ہوا۔
مصر اور شام کے اتحاد سے بننے والی یہ ریاست ترکی اور اسرائیل دونوں کے سرحد سے متصل تھی۔ جمال عبدالناصر کی سوویت یونین سے قربت کی وجہ سے خطے میں سوویت اثرات، عرب قوم پرستی اور اسلامی سیاسی تحریکوں کو روکنے کے لیے دونوں ممالک نے ایک خفیہ معاہدہ ’فینٹم ایکٹ‘ بھی کیا تھا۔
بعدازاں قبرص پر عرب دنیا کی حمایت کے حصول، عرب ممالک کے تیل اور تجارتی منڈیوں پر بڑھتے انحصار اور فلسطینیوں سے اسرائیلی برتاؤ سے متعلق مقامی سطح پر بڑھتے ردعمل کے باعث ترکی نے اسرائیل کے ساتھ تعاون میں قدم پیچھے ہٹانا شروع کیے۔
ڈنکین رینڈل کے مطابق 1966 کے بعد دونوں ممالک کے سفارتی تعلقات میں خلیج آنا شروع ہوئی۔ 1974 میں جب ترکی نے پی ایل او کو تسلیم کیا اور اگلے ہی برس اقوام متحدہ میں اس قرار داد کی حمایت کی جس میں صہیونیت کو نسل برستی کے برابر قرار دیا گیا تھا۔ جس کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔
تاہم یہ تعلقات 1990 کی دہائی میں دوبارہ بحال ہونا شروع ہوگئے۔ خلیج جنگ پر ترکی اور عرب دنیا کے اختلافات تھے اور اس وقت تک اسرائیل نے براہ راست فلسطینیوں سے معاملات کا آغاز کر دیا تھا۔
دوسری جانب ترکی کو کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنی صلاحیتیں بڑھانے کی ضرورت تھی۔
اسی لیے 1996 میں ترکی اور اسرائیل کے درمیان دفاعی معاہدے ہوئے اور فارن پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے مطابق آئندہ برسوں میں ترکی نے اسرائیلی کمپنیوں سے دو ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدے۔
ڈنکین رینڈل کے مطابق اسرائیل اور ترکی کے مابین بڑھتے تعلقات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک امریکہ پر سرد جنگ کے خاتمے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں اپنی اسٹریٹجک اہمیت ثابت کرنا چاہتے تھے۔ جب کہ بغداد، دمشق اور تہران میں مخالف حکومتوں سے متعلق امریکہ ، اسرائیل اور ترکی کے تحفظات بھی مشترکہ تھے۔اس دور میں اسرائیل اور ترکی کے درمیان تجارت، تعلیم اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر اقتصادی شعبوں میں تعاون تیزی سے بڑھا۔
لیکن 2003 میں طیب ایردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے اقتدار میں آنے کے بعد ایک بار پھر دونوں ممالک کے تعلقات کمزور ہونا شروع ہوئے اور 2010 اور 2011 کے واقعات میں یہ سفارتی تعلقات تقریباً منقطع ہوگئے۔
تعلقات میں بہتری کی کوشش
خبر رساں ادارے ’رائٹرز ‘کے مطابق 2013 میں اس وقت کے صدر امریکہ براک اوباما کی کوششوں سےایردوان اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کا ٹیلیفونک رابطہ ہوا۔ اس فون کال میں نیتن یاہو نے ترکی سے ان غلطیوں پر معافی مانگی جو ممکنہ طور پر ماوی مرمرہ کے واقعے میں ترک کارکنوں کی موت کا باعث بنیں۔
اس کے بعد دسمبر 2015 میں اسرائیل اور ترکی تعلقات معمول پر لانے کے لیے ابتدائی سمجھوتے پر پہنچ گئے اور دونوں نے اپنے اپنے سفیر واپس بھجوا دیے۔ جون 2016 میں دونوں ممالک نے سفارتی تعقلقات بحال کرنے کا معاہدہ کیا جسے اس وقت کے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے خطے کے استحکام کے لیے ’امید افزا‘ قرار دیا تھا۔
جون 2017 میں ترکی کے وزیر خزانہ کا یہ بیان سامنے آیا کہ اسرائیل نے فلوٹیلا کے واقعے میں ہلاک ہونے والے کارکنوں کے لواحقین کو دو کروڑ ڈالر زرِ تلافی ادا کیا ہے۔
ایک بار پھر کشیدگی
دسمبر 2019 میں صدر ٹرمپ کے دور میں جب یروشلم میں امریکہ کا سفارت خانہ قائم کیا گیا تو اس کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔ مظاہرین کے خلاف اسرائیل کی کارروائیوں میں 60 افراد ہلا ک ہوئے۔ صدر ایردوان نے اس واقعے کو نسل کشی اور اسرائیل کو ایک دہشت گرد ریاست قرار دیا۔
اس کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بار پھر کشیدگی بڑھ گئی۔ دسمبر 2019 میں اسرئیل نے ترکی اور لیبیا کے درمیان بحیرہ روم میں میں بحری حدود سے متعلق ہونے والے معاہدے کی مخالفت کی۔ اگلے ہی ماہ اسرائیل، یونان اور قبرص نے یورپ سے قدرتی گیس کی درآمد کے لیے پائپ لائن کی تعمیر کا معاہدہ کیا۔ ترکی نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور بعد ازاں اس پر کام رک گیا۔
تعلقات کی بحالی کا آغاز
رواں برس کے آغاز میں ترک حکومت کے حامی اخبار ’ڈیلی صباح‘ میں دفاعی اور خارجہ امور کور کرنے والی ترک صحافی نور ایوزکان نے لکھا تھا کہ 2021 کے آخر میں ترکی نے سفارتی سطح پر تعلقات کی بہتری کے لیے کوششیں تیز کر دی تھیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 2022 میں ان کے نتائج آنا شروع ہوں گے۔
انہوں نے ترکی دو طرفہ تعلقات میں اختلافِ رائے کے باوجود روس، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور مشترکہ مسائل کے قابلِ قبول حل تلاش کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔
ان کے مطابق ترکی علاقائی سطح پر نئے اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس مقصد کے تحت ترکی نے خلیجی ممالک، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، اسرائیل، مصر اور آرمینیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوششیں گزشتہ برس سے تیز کر دی ہیں۔
مبصرین خطے میں بدلتی صورتِ حال اور بالخصوص ترکی کو درپیش معاشی چیلنجز کو صدر ایردوان کے رویے میں تبدیلی کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں ترکی نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیے گئے ایک اسرائیلی جوڑے کو رہا کردیا۔ اس جوڑے کو استنبول میں صدر ایردوان کی رہائش گاہ کے قریب فوٹو گرافی کرتے ہوئے الزام کیا گیا تھا۔ ان پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا تھا جس کی اسرائیل نے تردید کی تھی۔
اس جوڑے کی رہائی کے بعد اسرائیل کے وزیرِ اعظم نفتالی بینیٹ نے صدر ایردوان سے فون پر بات بھی کی تھی جو 2013 کے بعد دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا پہلا ایسا رابطہ تھا۔
اس کے بعد رواں برس فروری میں صدر ایردوان کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ ترکی اور اسرائیل کی قدرتی گیس کو یورپ تک پہنچانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایردوان نے عندیہ دیا تھا کہ مارچ میں دونوں ممالک سربراہان مملکت کی ملاقات کے موقعے پر توانائی کے شعبے میں تعاون پر بات کریں گے۔
اسرائیل سے بڑھتے ہوئے روابط کو صدر ایردوان کی سخت گیر پالیسی میں نرمی سے تعبیر کیا جارہا ہے تاہم گزشتہ ماہ ترکی کے وزیرِ خارجہ میلود چاوش اولو نے اسرائیلی صدر کے دورے سے قبل یہ بیان دیا تھا کہ اسرائیل سے قریبی تعلقات کی وجہ سے ترکی فلسطینی ریاست کے لیے اپنی حمایت سےپیچھے نہیں ہٹے گا۔
اسرائیلی صدر کا دورہ کیا معنی رکھتا ہے؟
روایتی طور پر اسرائیل میں صدر کا دورہ اعزازی حیثیت کا حامل ہے۔ صدر آئزک ہرزوگ نے گزشتہ برس جولائی میں اپنا منصب سنبھالا تھا اور اس کے بعد ایردوان اپنے اسرائیلی ہم منصب سے کئی مرتبہ بات کرچکے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ تعلقات کی بہتری کے لیے ترکی کی کوششوں سے متعلق اسرائیل میں بھی گرم جوشی پائی جاتی ہے۔ لیکن 2010 کے بعد بہت کچھ تبدیل ہوا ہے۔ 2019 میں مشرقی بحیرہ روم میں بننے والے گیس فورم میں روم اور قبرص کے ساتھ مصر بھی شامل ہوگیا اور ترکی کو اس سے باہر رکھا گیا۔ 2020 میں پائپ لائن کے معاہدہ ہوا تو ترکی نے اس پر اعتراض کیا تھا۔
تل ابیب یونیورسٹی سے وابستہ ترکی کے امور کی ماہر گیلیا لنڈنسٹراس کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ کو بھی اس معاہدے کے کاروباری اعتبار سے قابلِ عمل ہونے پر تحفظات ہیں۔ لیکن ترکی کو اس پر گفت و شنید سے باہر رکھنے پر تشویش تھی۔ اس کے علاوہ صدر بائیڈن کے انتخابات کے بعد سے ان کی حکومت کے ساتھ ترکی کی حکومت کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں ہیں جس کی وجہ سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلق کی بحالی کے لیے ترکی پر دباؤ بڑھا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی مدد سے ابراہام اکارڈ کے ذریعے عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی بہتری کے بعد موجودہ حالات میں یہ واضح ہوگیا ہے کہ اس بار ترکی کے ساتھ حالات کی بہتری کے لیے اسرائیل ’ضرورت مند‘ نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے ایردوان کی حالیہ کوششیں اس بات کی عکاس ہیں کہ ترکی کی خارجہ پالیسی میں مزید اعتدال آرہا ہے۔ خطے میں یونان اور قبرص کے لیے بھی یہ اچھی خبر ہے۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں اداروں ’اے ایف پی‘ اور ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔