بھارتی وزارتِ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ نو مارچ کو پاکستان کے علاقے میاں چنوں میں گرنے والا میزائل اسی کا تھا، لیکن یہ تکنیکی خرابی کی وجہ سے غلطی سے فائر ہو گیا تھا۔
جمعرات کو بھارت کی وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق نو مارچ کو معمول کی دیکھ بھال کے دوران غلطی سے ایک میزائل فائر ہوا جس کے پاکستانی علاقے میں گرنے پر بھارت کو افسوس ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت کو جہاں اس واقعے پر افسوس ہے وہیں یہ اطمینان بھی ہے کہ اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
بھارتی وزارت دفاع کے بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت نے اس واقعہ کو سنجیدگی سے لیا ہے اور اس کی اعلیٰ سطحی کمیٹی سے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
بیان میں پاکستان میں گرنے والے میزائل کے بارے میں کوئی تفصیل نہیں بتائی گئی۔ تاہم، نئی دہلی کی میڈیا رپورٹس میں دفاعی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ روس کے اشتراک سے بھارت میں تیار کردہ برہموس سپر سونک کروز میزائل تھا۔
بھارت کے برہموس سپرسونک کروز میزائل
رپورٹس کے مطابق اس میزائل کی رینج 400 کلومیٹر سے زائد ہے اور یہ بھارت کا سب سےقابل بھروسسہ طویل رینج کا میزائل ہے۔
رپورٹس کے مطابق آرمی اور فضائیہ دونوں کے پاس یہ میزائل ہے۔ دفاعی ذرائع کے مطابق برہموس میزائل کا راستہ اس کے ہدف پر منحصر ہے۔
بھارتی ریاست ہریانہ کے علاقے سرسا میں، جہاں سے پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس میزائل کو داغا گیا، برہموس بیس نہیں ہے۔ یہ میزائل نظام خصوصی ٹرک کے ذریعے آپریٹ کیا جاتا ہے اور اسے ایک مقام سے دوسرے مقام تک لے جایا جا سکتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس واقعہ نے دفاعی ماہرین کو حیران کر دیا ہے کیونکہ اس میزائل نظام کی فائرنگ کی تیاری میں ہدف کا تعین اور کئی سویچ کو آن کرنا شامل ہے۔
سینٹر فار ایئر پاور اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل ائیر مارشل (ریٹائرڈ) انیل چوپڑہ کے مطابق اس کا امکان ہے کہ تکنیکی خرابی سے اس کی فائرنگ ہوئی ہو لیکن چونکہ دونوں نیوکلیائی قوتیں ہیں اور دونوں کے درمیان لڑائیوں کی تاریخ بھی ہے، اس لیے اس واقعہ سے پیچیدگی پیدا ہو سکتی تھی۔
دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں شعبہ مطالعات برائے بین الاقوامی امور میں پروفیسر ہیپی مون جیکب نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ دونوں ملکوں نے صورت حال کو اچھی طرح سنبھال لیا۔
انھوں نے کہا کہ اس حادثے کی وجہ سے پاکستان میں جن مکانات کو نقصان پہنچا ہے، نئی دہلی کو چاہیے کہ وہ ان کو معاوضہ ادا کرے۔
دفاعی اور ایشیائی امور کی ماہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ بھارت اور پاکستان کو کسی بھی قسم کے خطرے کو کم کرنے کے لیے بات کرنی چاہیے۔
دفاعی تجزیہ کار سوشانت سنگھ نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ بھارت کے اعتراف نے حفاظتی اقدامات کی اہلیت پر سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
ان کے مطابق بھارت نے ہمیشہ اپنے غلطیوں اور خطروں سے پاک نظام پر فخر کیا ہے۔ لیکن اس واقعہ نے اس کی ساکھ پر دھبہ لگایا ہے اور ایسے سوال کھڑے کر دیے ہیں جس قسم کے سوال گزشتہ 20 برس میں کم ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ پاکستانی فضائیہ کے ترجمان ایئر مارشل طارق ضیا کے مطابق ملبے کے جائزے سےپتہ چلتا ہے کہ یہ سپرسونک میزائل تھا۔ تاہم غیر مسلح تھا۔
بھارتی ناظم الامور کی پاکستانی دفتر خارجہ میں طلبی
اسلام آباد میں بھارتی سفارت خانے کے ناظم الامور کو جمعے کو پاکستانی دفتر خارجہ طلب کیا گیا اور انھیں اس واقعہ کی اطلاع دی گئی۔
ان سے کہا گیا کہ وہ بھارتی حکومت کو بتائیں کہ پاکستان نے اس فضائی خلاف ورزی اور بین الاقوامی ضوابط کی پامالی پر سخت اعتراض کیا ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ واقعات سے فضائی تحفظ اور علاقائی امن کے میدان میں بھارت کی بے توجہی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق پاکستان کے سینئر سفارت کاروں کی جانب سے اس واقعہ کے بارے میں امریکہ، برطانیہ، فرانس، چین اور روس کے سفیروں کو مطلع کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتحار نے کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے ایک میزائل نما چیز کو پاکستانی علاقے میں داغا گیا جس پر پاکستانی فضائیہ نے بروقت ردِعمل دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنے طور پر تحقیق کی تو پتا چلا کہ یہ سپر سانک پروجیکٹائل اور ممکنہ طور پر میزائل تھا جس کی بہرحال بھارت کو وضاحت کرنی ہے۔
پاکستان کا ردعمل
پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے چیف میجر جنرل بابر افتخار نے کل ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ ’’پاکستان اس کھلی خلاف ورزی پر سختی سے احتجاج کرتا ہے اور مستقبل میں ایسے کسی واقعے کے خلاف احتیاط برتنے کا کہتا ہے۔
انہوں نے اس واقعے کو اشتعال انگیز قرار دیا تھا۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستان کے ائیر ڈیفینس سسٹم نے زمین سے زمین مار کرنے والے ایک راکٹ کو دیکھا تھا جو بھارتی شہر سرسا سے داغا گیا تھا۔ اس کی پرواز کے مکمل دورانیے کا مسلسل جائزہ لیا گیا۔
ان کے بقول اس راکٹ نے پرواز کے شروع میں ہی اپنا راستہ تبدیل کیا اور پاکستان کی سرحد میں داخل ہوا اور اس کی فضائی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میاں چنوں میں آ کر گرا۔
انہوں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ یہ راکٹ فضا میں 12 کلومیٹر تک بلند تھا اور پاکستان کی فضائی سرحدوں میں 204 سیکنڈ تک موجود رہا اور 124 کلومیٹر اندر آکر گرا۔
انہوں نے بتایا کہ اس راکٹ کے گرنے سے کچھ شہری املاک کو نقصان پہنچا لیکن اس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی زخمی ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس راکٹ کی وجہ سے بھارت اور پاکستان میں بہت سی مقامی اور بین الاقوامی فلائٹس بھی خطرے میں پڑیں جب کہ انسانی جان اور پراپرٹی بھی خطرے میں تھی۔
پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اس واقعے پر بھارت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کوئی غلطی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بھارت کی جارحیت کا مظاہرہ تھا۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ایسا دوسری مرتبہ ہوا ہے کہ بھارت نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کی ہے۔
یاد رہے کہ فروری 2019 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی جھڑپ ہوئی تھی جب بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستانی کشمیر کے علاقے بالا کوٹ میں پے لوڈ گرایا تھا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستانی کشمیر میں دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جو بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ پاکستان نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں کسی دہشت گرد تنظیم کا کوئی ٹھکانہ موجود نہیں تھا۔
جواب میں پاکستانی ایئر فورس کے طیاروں نے 27 فروری کو لائن آف کنٹرول کے اُس پار کارروائی کا دعویٰ کیا تھا جب کہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان فضائی جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
جھڑپ کے دوران بھارت کا ایک طیارہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں گرا تھا جس کے پائلٹ ابھینندن کو پاکستان نے تحویل میں لے کر بعدازاں بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔